بلوچستان: سیلاب سے متاثرہ خواتین نفسیاتی مسائل سے دوچار

خواتین کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت میں حساس طبیعت اور جلد نفسیاتی اثر لینے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

ماہر نفسیات رضیہ تجویز کرتی ہیں کہ ’پہلے خواتین کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی صحت کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس کے ساتھ ان کو جہاں رکھا جائے وہ جگہ خواتین کے لیے محفوظ ہو۔‘ (تصاویر: حفصہ قادر)

بلوچستان میں ایک جانب جہاں سیلاب نے نظام زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے وہیں دوسری جانب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خواتین صحت اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔

خواتین کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت میں حساس طبیعت اور جلد نفسیاتی اثر لینے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

ویلفیئر ایسوسی ایشن فار نیو جنریشن (وانگ) ایک غیرسرکاری تنظیم ہے۔ جو لسبیلہ میں نوجوانوں اور خواتین کی فلاح وبہبود اور تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے۔ جبکہ اس وقت یہ ادارہ سیلاب متاثرین کی مدد کا کام کر رہا ہے۔

اس ادارے میں گرلز انگیجمنٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرنے والی حفصہ قادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سیلاب نے خواتین کو بہت سی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ میں نے ان کو صحت، پردے، اور نفیساتی مسائل سے دوچار پایا۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان کا ضلع لسبیلہ سندھ اور بلوچستان کو کراچی کےذریعے منسلک کرتا ہے۔ دونوں صوبوں کے درمیان ٹریفک بھی اسی علاقے سے گزرتی ہے۔ جب کہ یہاں پر موجود پل کو بھی سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔

حفصہ بتاتی ہیں کہ لسبیلہ میں خواتین کومسائل کا پہلے سے بھی سامنا تھا اور ویسے بھی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ خواتین ہی متاثر ہوتی ہیں۔ ایک طرف ان کے گھر بار سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں اور دوسری طرف ان کو کیمپوں میں رہنا پڑ رہا ہے۔

حفصہ نے بتایا کہ خواتین اپنے مسائل کو مردوں کو بتانےمیں جھجک محسوس کرتی ہیں اس لیے ان کے مسائل سننے کے لیے خاتون کا موجود ہونا ضروری ہے۔

حفصہ کے مطابق ’میں نے دیکھا کہ سیلاب نے خواتین کو گھر بار سے بے گھر کر دیا ہے۔ پردے اور واش روم کا نہ ہونا بھی ان کی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔ جن میں حاملہ خواتین کی تو صحت بھی داؤ پر لگی ہے۔ ان کو ہسپتال تک پہنچنے کے لیے راستے کا نہ ہونے تکلیف کا سامنا بھی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بعض علاقوں تک رسائی بھی مشکل ہے اور وہاں متاثرہ خواتین کو اپنے ساتھ بچوں کو سنبھال رہی تھیں جو اس صورت حال میں بہت ڈرے ہوئے تھے۔

حفصہ نے بتایا کہ ’میں نے جب خواتین سے بات کی تو ہر ایک کی اپنی کہانی تھی۔ لیکن مجھے جس کہانی نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ایک بچی کی تھی۔ جو بیمار تھی اور اس کی تشخیص بھی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ اس کی والدہ بھی چل بسی تھیں۔‘

بلوچستان میں یکم جون سے شروع ہونے والی مون سون بارشوں میں ضلع لسبیلہ میں سیلاب کے متعدد ریلوں اور بارشوں نے قومی شاہراہ سمیت اندرونی علاقوں میں راستوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق صرف لسبیلہ میں ساٹھ کلو میٹر سڑکیں تباہ ہوئی ہیں۔

بلوچستان سائیکالوجسٹ ایسوسی ایشن کی ممبر اور ماہر نفسیات رضیہ کہتی ہیں کہ ’سیلاب جیسے قدرتی آفت میں سب سے پہلا شکار عورت ہی ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زیادہ حساس اور جلد نفیساتی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رضیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سیلاب جیسی صورت حال میں عورتوں کو بہت سے مسائل جیسے پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر) اور انزائٹی کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال میں کسی بھی انسان کے لیے جذباتی اور نفسیاتی توازن کے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔‘

رضیہ کہتی ہیں کہ ’قدرتی آفات کے وقت بنیادی ضروریات نہ ملنے کی وجہ سے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ زندگی دوبارہ اپنی درست راستے پر رواں دواں ہو سکے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’سیلاب جیسی صورت حال میں انسانی صحت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ عورتوؐں کو خصوصی طور پر بہت سی مشکلات جیسی ماہواری، حمل میں پیچیدگی اور اسقاط حمل کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔‘

رضیہ کہتی ہیں کہ ’بلوچستان میں اب تک کوئی سروے سامنے نہیں آیا کہ سیلاب سے خواتین اور بچوں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم پنجاب سے یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دوران پیدائش بچوں کی شرح اموات زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہے اور عورتوں اور بچوں کو شدید خطرات لاحق ہیں‘

اس صورت حال میں میں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

ماہر نفسیات رضیہ تجویز کرتی ہیں کہ ’پہلے خواتین کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی صحت کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس کے ساتھ ان کو جہاں رکھا جائے وہ جگہ خواتین کے لیے محفوظ ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’متاثرین سیلاب کو تمام سہولیات مہیا کی جائیں۔ اس کے علاوہ سیلاب متاثرین کے لیے ماہرین نفسیات کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ ان کی نفیساتی حالت بہتر کرکے ان کا حوصلہ بڑھا سکیں۔‘

رضیہ مزید تجویز دیتی ہیں کہ ’ماہر نفسیات ان کو سکھائیں کہ وہ آفت کے بعد کے مسائل کا سامنا کیسے کرسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ اپنی ذہنی صحت کو کس طرح برقرار رکھ سکتی ہیں۔ ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہر نفسیات خواتین کو ایسی مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں جن سے ان کا ذہنی دباؤ کم ہوسکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان