فیصل آباد پولیس کا امریکی طرز پر تشدد کے خلاف قدم موثر ہوگا؟

نئی پالیسی کے تحت ملزموں کو گرفتار کیے جاتے ہی ایک فارم دیا جائے گا جس میں ان کے حقوق درج ہوں گے۔

فی الحال یہ پرفارما صرف فیصل آباد میں متعارف کروایا گیا ہے (اے ایف پی)

آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ ہرانسان پھر چاہے وہ ملزم ہو یا شکایت کنندہ، اس کے وقار کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ اسی آرٹیکل کی شق نمبر دو یہ کہتی ہے کہ آپ کسی پر ثبوت حاصل کرنے کے مقصد سے تشدد نہیں کر سکتے۔

اسی آرٹیکل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصل آباد پولیس نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد عمر سعید ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تفتیش کے دوران زیر حراست شخص پر تھانوں میں کسی قسم کا تشدد نہ کیا جائے اسی لیے پولیس حراست میں آتے ہی زیر حراست شخص کو فوری طور پر امریکہ کے میرانڈا رائٹس کی طرز پر ایک فارم دیا جائے گا جس کا مقصد آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 ضمن (2) کی پاسداری ہے جس پر تفتیشی افسر،ایس ایچ او اور دوران حراست شخص کے دستخط ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 14 اور اس کی شق 2 ہر انسان کے بنیادی حق کو یقینی بنانے کے لیے ہے، اور یہ ہر شخص پر لاگو ہوتی ہے اس لیے ہم نے جو یہ قدم اٹھایا وہ آئین اور قانون کے تحت اٹھایا ہے۔

میرانڈا رائٹس کیا ہیں؟ 

عمر سعید نے بتایا، ’1966 میں امریکہ میں ایک ایسا کیس ہوا جسے میرانڈا کیس کہتے ہیں۔ میرانڈ ایک ملزم تھا اور اسے جب عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ اس سے جو بیان لیا گیا ہے وہ اس پر تشدد کرنے کے بعد لیا گیا ہے۔ اس کیس کے تناظر میں امریکہ میں ایک رولنگ آئی جسے ’میرانڈا رائٹس‘ یا ’میرانڈا وارننگز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے تحت ہر ملزم کو زیر حراست لیتے وقت یہ بتایا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق ان پر کوئی تشدد نہیں کر سکتا نہ آپ پر کوئی کسی قسم کا بیان دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ 1966 سے امریکہ کی جیلوں میں ملزم کو یہ فارم دیا جاتا ہے جس میں زیر حراست شخص کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے زیر حراست ہوتے ہوئے کیا حقوق ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی سٹیج پر اگر ملزم عدالت میں جا کر یہ بیان دے دے کہ مجھ سے سب کچھ زبردستی کہلوایا گیا ہے تو اس کیس کی ساری تفتیش الٹی ہو جاتی ہے۔

اس وقت اس اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ 

سی پی او فیصل آباد عمر سعید نے بتایا، ’ستمبر کی 14 تاریخ کو میرے علم میں آیا کہ تھانہ سٹی جڑانوالہ اور تھانہ ٹھیکریوالا کی حدود میں پولیس کا زیر حراست شخص پرتشدد کا واقعہ ہوا ہے۔ میں نے سخت کارروائی کرتے ہوئے دونوں واقعات میں ملوث ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس افسران کو نوکری سے برخاست کر دیا۔

’اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ ایک دو کیس میرے علم میں آئے تو ان پر ایکشن ہو گیا تو کیوں نہ اس پر ایک پالیسی بنائی جائے۔ میں نے میرانڈا رائٹس خود بھی پڑھے ہوئے تھے اور میرے ذہن میں بھی تھا کہ ان کو عمل میں لایا جائے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے 16 ستمبر کو یہ نوٹفیکیشن جاری کر دیا۔ میں تھانوں کے تفتیشی افسران کو بتایا کہ آپ دستور پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت کسی شخص پر تشدد نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کے لیے ہم نے ایک پرفارمارا دے دیا جس زیر حراست آنے والا شخص، متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او، اور تفتیشی افسر دستخط کریں گے۔ ایک دن میں جتنے بھی ملزمان پکڑے جاتے ہیں ان کی تفصیل میرے دفتر میں آتی ہے۔ اپ فرض کریں کہ فیصل آباد میں سو لوگ پولیس نے پکڑے ہیں تو میرے پاس ایک سو فارمز ہی آنے چاہیے۔‘

کیا ایسے پرفارماز دیگر اضلاع میں بھی ہیں؟

’یہ ضرور ہے کہ جب کوئی افسر ملزم کو لے کر عدالت جاتا ہے تو عدالت یہ سوال ضرور کرتی ہے کہ کیا پولیس نے زیر حراست شخص کو یہ بتایا ہے کہ اسے کس جرم میں حراست میں لیا گیا ہے؟ کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ ایسے بھی پکڑے جاتے ہیں جنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس جرم میں پکڑے گئے ہیں۔ لیکن اس طرح کا تحریری پرفارما میرے علم میں نہیں کہ کہیں اور پر کروایا جاتا ہے۔‘

اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ 

عمر سعید کا کہنا تھا کہ ’اس کا فائدہ ایک تو یہ ہوگا کہ ہم ایک فیڈ بیک میکنزم بنا سکیں گے۔ اس قدم کے بعد اگر تشدد کا کوئی واقعہ ہو گا تو وہ منظر عام پر آ جائے گا، کیونکہ لوگ ہمیں بتائیں گے کہ ہم نے تو بہت بڑا دعویٰ کیا تھا تو پھر یہ واقعہ کیوں ہوا۔

’دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے تفتیشی افسران کو یہ معلوم ہو گا کہ ہم ایسے کیسوں پر تشدد کرنے والے افسران کے خلاف ایکشن پہلے لے چکے ہیں تو آئندہ بھی لے سکتے ہیں۔ 

’تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ خود ہی آہستہ آہستہ روایتی طریقہ تفتیش سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تفتیش کی طرف پولیس کا رخ ہو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام جد ید سائنسی طریقے جیسا کےموبائل ڈیٹا، سی سی ٹی وی کیمرا، فنگر پرنٹس، ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعےسے مقدمہ کے لیے شواہد اکٹھے کرنا ہےنہ کہ تشدد کے ذریعے کسی کو گنہگار یا بےگناہ ثابت کرنا ہے۔ تشدد کرنےوالا اہلکار فیصل آباد پولیس کا حصہ نہیں رہے گا۔

سی پی او کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی کا ایک انڈیکیٹر ہو گا۔ لوگوں کو ان کے حقوق کا علم ہو گا۔ تشدد کے جو واقعات آج سے 20 سال پہلے تھے ان میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کمی آئی ہے۔ امریکہ میں بھی ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے میرانڈا رائٹس نافذ کرنے کے بعد وہاں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ وہاں بھی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ لیکن ان کا سروے کیا جائے تو وہ کم ہوئی ہو گی۔ ’میں بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ یہاں سب راتوں رات تبدیل ہو جائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ چیزیں آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگیں گی۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ فارم پولیس حراست میں تشدد نہ کرنے کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے؟ 

اس حوالے سے سیپی او نے بتایا: ’ہمارا تفتیشی افسر اس بات کا پابند ہے کہ وہ حراست میں لینے کے فوری بعد زیر حراست شخص کے گھر والوں کو اطلاع دے گا۔ جب خاندان کو اطلاع جائے گی تو وہ کونسل کو بتائیں گے اس طرح زیر حراست شخص کے لیے ایک سہولت پیدا ہو جائے گی کہ اس ک ے گھر والے اس بات کو دیکھیں گے کہ بندہ پکڑا گیا ہے۔ کئی کیسوں میں تو زیر حراست شخص کے گھر والوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے گھر کے کسی رکن کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس پولیس سٹیشن میں ہے۔

دوسری چیز ہے کہ زیر حراست شخص کو 24 گھنٹے کے اندر اندر میجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہے جو کہ پہلے سے ہی قانون ہے اور یہ چیز غیر آئینی حراست کو کم کرے گی۔

تیسرا اس پرفارما میں زیر حراست شخص کو تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ انہیں پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

اس پرفارمے کے حوالے سے تھانوں کا کیا رد عمل ہے؟ 

اس حوالے سے عمرسعید ملک نے بتایا کہ اس پرفارمے کےحوالے سے اب تک ہمارے پاس دو تین ریویوز آئے ہیں۔ تبدیلی کو قبول کرنے میں مزاحمت آتی ہے۔ ہمیں تھوڑی مزاحمت کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے۔ تھانوں کے اہلکارکہتے ہیں کہ کئی کیسسز میں وہ باکل بلائنڈ ہوتے ہیں ان میں انہیں تھوڑی بہت اجازت دی جائے اور یہ مزاحمت نیچے کی سطح پر آئی ہے۔‘ 

یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ایک زیر حراست شخص کو یہ پرفارما دیا گیا تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شروعات ہے اس لیے نہ ملزم کو پوری سمجھ ہے نہ ہی تفتیشی افسر کو۔ اس کے لیے ہم آئیندہ آنے والے دنوں میں تفتیشی افسران کے لیے ایک تربیتی پروگرام بھی کروا رہے ہیں۔ 

اس حوالے سے آگاہی کیسے پھیلائیں گے؟ 

اس سوال کے جواب میں عمر سعید کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آگاہی ایک تو میڈیا کے توسط سے پھیلائی جائے گی۔ دوسرا ہماری اپنی فورس ہے جن میں سینئیر افسران ہیں جنہیں میں نے خود بلا کر اس حوالے سے بریفنگ دی۔ اس کے علاوہ جیل اتھارٹیز کے ساتھ ہم کوارڈینیٹ کر رہے ہیں۔ پھر فیصل آباد بار کونسل، ہمارے سیاست دان اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو بھی شامل کیا جائے گا۔ 

قانونی ماہرین اس اقدام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 

ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: سی پی او فیصل آباد نے جو یہ قدم اٹھایا ہے وہ انہوں نے اپنی طرف سے مثبت تبدیلی اور سسٹم میں بہتری لانے کے لیے کی اور یہ اچھی سوچ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس حراست میں تشدد ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور شاید آگے بی ہوتا رہے گا کیونکہ ایسے کیسوں میں تشدد کرنے والے افسر یا پولیس اہلکار کی انکوائری بھی پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس ہے۔ اور پولیس والے اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف کاروائیاں دو چار تو کر تے ہیں لیکن عموماً ایسے کیسوں میں کارروائی نہیں ہوتی۔ ’میرے خیال میں اس کا حل تب تک نہیں ہوگا جب تک کسی تیسری پارٹی کے پاس پولیس تشدد کے حوالے سے تحقیقات کا اختیار نہیں ہوگا۔ ایسے تشدد کی جوڈیشل انکوائری ونی چاہیے۔ اور اس حوالے سے دی جانے والی سزاؤں میں بھی ترامیم کرنی پڑیں گی۔

’دوسری اہم چیز یہ ہے کہ یہاں عدالت میں حبس بے جا کے کئی کیسسز آتے ہیں جس میں نظر آرہا ہوتا ہے کہ ملزم پر تشدد ہوا ہے لیکن وہ ایس ایچ او کی موجودگی میں عدالت کو بتاتا ہے کہ اس پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ اس لیے جب تک سزا سخت نہیں ہوگی تب تک ایسی کوششوں کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ ہمارے پاس ایسے کیس آتے ہیں جن میں تھرڈ ڈگری تشدد کا استعمال ہوا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہاں کون سی تفتیش سائنٹفک انداز میں ہو رہی ہے؟ اربوں روپیہ لگا دیا ہے سیف سٹی پنجاب نے اور جب کوئی واردات ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا متعلقہ کیمرا ہی نہیں چل رہا تھا۔ پولیس کا یہ پرانا طریقہ ہے کہ دو چار بندے پکڑو ان کو چھتر مارو اور اس کے بعد ان سے کوئی بات نکلتی ہے تو اسے ثبوت کا حصہ بنا دو۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 14 اور اس کی شق 2 تو بنیادی حق ہے اور اس حق کو مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پولیس پر چیک نہیں ہے۔ پولیس آرڈر 2002 میں آیا تھا جس کے تحت پبلک سیفٹی کمشن بننے تھے جنہوں نے اسی قسم کی شکایات کا ازالہ کرنا تھا۔ وہ کمشن آج تک معقول طریقے سے بنے ہی نہیں۔ 

کیا پولیس حراست میں سیاست دانوں پر تشدد ہوتا ہے؟ 

گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل اور ٹی وی اینکر جمیل فاروقی کے حوالے سے بھی یہ خبریں سامنے آئیں کہ انہیں پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے فرہاد علی شاہ کہتے ہیں کہ جیلوں میں ہائی پروفائل شخصیات پر بھی تشدد ہوتا ہے۔ پولیس پولیٹکل وکٹمائزیشن کرتی ہے۔ جب ایک حکومت آتی ہے تو پولیس ان کا آلۂ کار بن جاتی ہے اور مخالفین کے خلاف کاروائیاں شروع کر دیتی ہے اور جب مخالفین حکومت آتے ہیں تو پولیس ان کا ٹول بن کر پہلے والوں کے خلاف کاروائی شروع کر دیتی ہے۔

چاہے شہباز گل ہوں یا کیپٹن صفدر ہوں پولیس بطور ٹول استعمال ہوتی ہے۔ اس کے لیے جب تک آپ پولیس کو سیاسی طور پر آزاد نہیں کریں گے، سیاسی دباؤ کو ختم نہیں کریں گے تب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔

سی پی او فیصل آباد عمر سعید ملک کا کہنا ہے کہ ’پولیس کو لوگ جرائم کے حوالے سے کم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انسانی حوٓقوق کی خلاف ورزی پر زیادہ اس لیے پولیس کی لیڈر شپ کو انسانی حقوق پر زیادہ فوکس کرنا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس پالیسی کو لانے میں آئی جی پنجاب بھی ان کے ساتھ رابطے میں تھے اور فیصل آباد میں اگر اس کا پائلٹ کامیاب ہوا تو اس پالیسی کو باقی اضلاع میں بھی لایا جاسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان