پنجاب پولیس تبادلے: سیاسی مداخلت محکمے پر کیسے اثر انداز؟

سیکرٹریٹ کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن میں تقرر وتبادلوں کی نئی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں 15 اضلاع کے ڈی پی او کے تقرر و تبادلوں کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

راولپنڈی میں 13 اپریل 2021 کو ایک احتجاج کے دوارن بند سڑک پر پولیس کا گشت (اے ایف پی)

پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں بھی پولیس افسران کی سیاسی تقرریوں اور تعیناتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

پنجاب میں یہ روایت وقت کے ساتھ تقویت پکڑتی دکھائی دیتی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ساتھ ہی انتظامی اور خاص طور پر پولیس افسران کے تبادلوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

موجودہ حکمران اتحاد نے اختیارات سنبھالتے ہی وفاق کی طرح پنجاب بھر میں روزانہ کی بنیاد پر تقرروتبادلے شروع کردیے ہیں۔ ابھی تک چیف سیکریٹری اور آئی جی کو تو تبدیل نہیں کیا گیا البتہ صوبے کے ڈویژنل اور ضلعی پولیس افسران کی تبدیلی کی آئے روز فہرست جاری ہو رہی ہے۔

تبادلوں کی ایک لسٹ گذشتہ روز جاری ہوئی جس میں کچھ عرصہ پہلے ڈی پی او نارووال تعینات کیے گئے رضوان گوندل کا تبادلہ میانوالی کر دیا گیا ہے، جس پر ماہرین کے مطابق یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ سیاسی تقرری ہو سکتی ہے۔

تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی سب سے زیادہ تبادلے محکمہ پولیس کے افسران کے ہی کیےتھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے کم وبیش پونے چار سالہ دور حکومت میں سات چیف سیکرٹری اور آٹھ آئی جی جبکہ سینکڑوں ڈویژنل اور ضلعی افسران کے تقرر وتبادلے کیے گئے۔

سابق آئی جی پنجاب چوہدری یعقوب کے مطابق پولیس آرڈر 2002 کے تحت کسی پولیس افسر کو تین سال کی مدت پوری کیے بغیر کسی بڑی وجہ کے تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن اس پر عمل درآمد کوئی حکومت نہیں کرتی۔

رضوان گوندل کا تبادلہ بھی سیاسی ہے؟

سیکرٹریٹ کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن میں تقرر وتبادلوں کی نئی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں 15 اضلاع کے ڈی پی او کے تقرر و تبادلوں کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جبکہ چھ اضلاع کے ڈی پی اوز کو او ایس ڈی بنا کر سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وزیر اعلی پنجاب کے منتخب ہوتے ہی سی سی پی او لاہور کو تبدیل کر کے بلال صدیق کمیانہ کو تعینات کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی پولیس افسران کے تقرر و تبادلےکیے گئے۔

حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی پی او جہلم کامران ممتاز، ڈی پی او جھنگ حسن اسد علوی، ڈی پی او سرگودھا رضوان خان، ڈی پی او اوکاڑہ عمر سعید ملک، ڈی پی او وہاڑی طارق عزیز اور ڈی پی او میانوالی اسمعیل کھاڑک کو سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

جبکہ اسدالرحمٰن ڈی پی او چنیوٹ تعینات، عامر خان نیازی ڈی پی او جہلم مقرر، بلال ظفر شیخ ڈی پی او سرگودھا تعینات اور اسد سرفراز کی ڈی پی او نارووال تقرری ہوئی ہے۔ اسی طرح ذیشان رضا کو ڈی پی او سیالکوٹ، حسن اقبال کو ڈی پی او اوکاڑہ، رانا شاہد پرویز کو ڈی پی او وہاڑی اور رانا شعیب محمود ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ تعینات کیا گیا ہے۔

ان تبادلوں میں رضوان گوندل کو ڈی پی او میانوالی تعینات کیا گیا ہے جو کچھ عرصہ پہلے ڈی پی او نارووال تعینات کیےگئے تھے۔

یہ وہی ڈی پی او پاکتپن ہیں جن کو سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی فیملی کی گاڑی روکنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت میں انہیں کہیں تعینات نہیں کیا گیا۔ اب اچانک انہیں سابق وزیر اعظم عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی میں تعینات کرنے پر یہ سوال بھی اٹھ رہے پیں کہ کیا حکومت نے سیاسی طور پر کارروائیوں کے لیے انہیں تعینات کیا ہے؟

لاہور کے سینیئر کرائم رپورٹر نعمان شیخ کے بقول ہر حکومت میں پولیس افسران کو سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جس پر حکومت کو اعتماد نہ ہو یا کوئی شکایت ہو تو اسے عہدے سے محروم رکھنا بھی روایت بن چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں رضوان گوندل کو وزیر اعلیٰ پنجاب ہاؤس بلا کر عہدے سے ہٹایا گیا تھا جس پر پولیس افسران نے آئی جی کو احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ لیکن انہیں ہٹا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔

نعمان شیخ کے مطابق جیسے ہی حکومت تبدیل ہوئی انہیں دوبارہ ڈی پی او تعینات کیا گیا اور اب حکومت نے اپنے سیاسی مخالف کے ضلع میانوالی میں اس لیے تعینات کیا ہے تاکہ وہاں سیاسی طور پر مخالفین کو ٹف ٹائم دیا جائے۔

سیاسی مداخلت کے محکمہ پولیس پر اثرات

سابق آئی جی پنجاب چوہدری یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ایسی فورس ہوتی ہے جس کا کام عوام کا تحفظ کرنا اور جرائم پیشہ افراد کو قابو کر کے جرائم روکنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی حکومتیں پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

چوہدری یعقوب کے بقول ہر حکومت ایسے افسران کی تعیناتی چاہتی ہے جو ان کے اشاروں پر کام کریں۔ المیہ یہ ہے کہ آئی جی بھی اسی کو لگایا جاتا ہے جو حکمرانوں کے حکم پر سوال اٹھائے بغیر عمل کرے اور وزیر اعلیٰ کی مرضی کے مطابق ہی ڈویژنل اور ضلعی افسران کے تقرر وتبادلے کیے جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت سے محکمے کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ آئی جی کارکردگی کے لحاظ سے میرٹ پر عوامی مسائل حل کرنے والے افسران تعینات کرے۔

ان کا کہنا تھا: ’وزیر اعلیٰ کی مداخلت بلاجواز ہے۔ کیا فوج میں وزیر اعظم اپنی مرضی کے کور کمانڈر تعینات کرسکتے ہیں یا تقرر وتبادلوں میں مداخلت کر سکتے ہیں؟ تو جواب ہے نہیں کیونکہ آرمی چیف کو بہتر پتہ ہوتا ہے کہ کون سا افسر کتنی قابلیت رکھتا ہے۔ اسی طرح آئی جی کو بھی بااختیار بنانا چاہیے تاکہ وہ محکمے کو بہتر انداز میں چلائے اور نتائج بھی سامنے آئیں۔‘

سابق آئی جی نے کہا کہ رضوان گوندل کو پاکپتن سے بھی سیاسی مداخلت پر تبدیل کرنا غیر قانونی تھا اور پھر پی ٹی آئی لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے پولیس افسران کی سیاسی بنیادوں پر تقرروتبادلے بھی غلط فیصلہ تھا۔ ان کے مطابق اب رضوان گوندل کو میانوالی میں تعینات کرنا بھی بظاہر سیاسی انتقام کے لیے نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک پولیس میں سیاسی مداخلت جاری رہے گی جرائم پر قابو پانا مشکل ہے اور صرف سیاسی مقاصد ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

سابق آئی جی کے بقول وفاق ہو یا صوبے، ہر حکومت آئی جی پولیس بھی اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر تعینات یا تبدیل کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان