بلوچستان: جے یو آئی کی حکومت میں شمولیت کا امکان روشن

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو حکومتی اتحاد میں ممکنہ دراڑ کے پیش نظر جے یو آئی ف کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد، 18 ستمبر، 2022: وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر اور وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع سے ملاقات کر رہے ہیں (محکمہ اطلاعات، بلوچستان)

حالیہ بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان میں صوبائی حکومت حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جمیعت علما اسلام فضل الرحمان (جے یو آئی ف) کو عنان اقتدار میں شامل کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں چہ میگوئیاں تو کئی روز سے گردش کر رہی تھیں، تاہم اس خواہش کا اقرار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشل پارٹی (اے این پی) کے رہنما اصغر خان اچکزئی نے حال ہی میں صحافیوں سے ایک سے زیادہ تعاملات میں کیا۔

اصغر اچکزئی نے جمیعت علما اسلام فضل الرحمان کے رہنما مولانا عبدالواسع کے ساتھ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعت جے یو آئی ف وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں شامل ہونے جا رہی ہے۔

2018 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں تشکیل پانے والی سابق وزیر اعلی جام کمال کی حکومت کا تختہ الٹنے میں صوبائی اسمبلی میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں بشمول جمیعت علما اسلام فضل الرحمان اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے موجودہ وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دیا تھا۔ 

اصغر اچکزئی کے بیان کی تصدیق کے لیے جب اسلام آباد کے صحافی  محمد عثمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعلی بلوچستان نے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع سے ملاقات کر کے انہیں صوبائی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جے یو آئی ف نے بلوچستان حکومت میں شمولیت کی مشروط حامی بھر لی ہے، اور ان کی واحد شرط سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو صوبائی حکومت سے الگ کرنے سے متعلق ہے۔

ادھر کوئٹہ کے صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کے خیال میں وزیر اعلی قدوس بزنجو کو کسی ممکنہ مخالفت سے بچنے کے لیے ایک مضبوط جماعت کی بہرحال ضرورت ہے، اور اسی لیے انہوں نے جے یو آئی ف کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

بلوچستان کے سابقہ وزیراعلی جام کمال کے خلاف ان کے اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ایم پی ایز نے اس وقت کے سپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کا ساتھ دیا تھا۔

رشید بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وزیر اعلی قدوس بزنجو کے لیے زیادہ خطرہ صوبائی حکومت میں شامل ایسی جماعتیں ہیں جن کے اراکین اسمبلی کی تعداد ایک یا دو سے زیادہ نہیں۔

‘وزیر اعلی خطرہ محسوس کرتے ہوں گے کہ کم ایم پی ایز والی جماعتیں یا ان کے اراکین ذاتی طور پر کسی بھی وقت سوچ تبدیل کر سکتے ہیں۔’

کوئٹہ کے صحافی نے مزید بتایا کہ وزیر اعلی قدوس پزنجو نے اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کو بھی حکومت میں سمولیت کی دعوت دی تھی، تاہم اس طرف سے معذرت کر دی گئی۔

صوبائی حکومت میں ذرائع کے مطابق جمیعت علما اسلام فضل ارحمان کے کم از کم چار اراکین بلوچستان اسمبلی صوبائی وزرا کی حیثیت سے حلف اٹھائے گے، اور ایسا آئندہ چند روز میں ہونے جا رہا ہے۔

جے یو آئی ف کی جانب سے صوبائی وزرا کی حیثیت سے حلف اٹھانے والوں میں نواز کاکڑ، عبدالواحد صدیقی، یونس عزیز زہری اور ملک سکندر ایڈووکیٹ شامل ہو سکتے ہیں۔

رشید بلوچ کے خیال میں وزیر اعلی قدوس بزنجو کو نہ صرف ان کی حکومت کے اتحادیوں بلکہ اپنی جماعت کے اندر سے بھی انحراف کا خطرہ لاحق ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں موجودہ صوبائی حکومت اپنے وقت قیام سے غیر مستحکم تھی، اور دوسری جماعتوں اور ایم پی ایز کو مختلف طریقوں سے خوش رکھنے کی کوششوں کا تاثر تب سے موجود تھا۔

‘دوسروں کو خوش اور راضی رکھنے کے لیے ٹھیکے، ملازمتیں یا دوسرے طریقے استعمال ہو سکتے ہیں۔’

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہزادہ ذوالفقار نے جمیعت علما اسلام فضل الرحمان کی بلوچستان حکومت میں شمولیت سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر اعلی قدوس بزنجو کو یقینا کچھ ایسے اشارے ملے ہیں کہ تبدیلی آنے والی ہے، اور انہیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیئر صحافی کے خیال میں جمیعت علما اسلام کے لیے بھی حکومت میں شمولیت اہم ہے، کیونکہ آئندہ سال انتخابات کا ہے اور ہر جماعت اس کی تیاری کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ف بلوچستان حکومت کا حصہ بن کر تبادلوں کے علاوہ تعمیراتی کاموں کے ذریعے انتخابات سے قبل صوبے میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔

بلوچستان میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے شہزاہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ وزیراعلی قدوس بزنجو سے زیادہ وزیراعظم شہباز شریف نے صوبے میں سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے ہیں، جبکہ انہوں نے اپنے حلقے آوران کا دورہ بھی ایک لمبے عرصے کے بعد کیا۔

بلوچستان میں بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والے نظریاتی اور جماعتی اختلافات کے علاوہ صوبائی حکومت اور مختلف پارٹیوں کے اراکین اور رہنماوں کے درمیان موجود تناو اور صوبے میں سیلاب کی وجہ سے تباہی کی موجودگی میں اس ممکنہ سیاسی تبدیلی کو نیک شگون نہیں سمجھتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست