ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ملک میں جاری مظاہروں کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کو ’ملک کی سلامتی اور امن کے خلاف‘ کام کرنے والوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ صدر ابراہیم رئیسی نے یہ بات چاقو کے وار سے ہلاک ہونے والے ایک سرکاری اہلکار کے اہل خانہ سے تعزیت کے موقع پر کہی۔
اس اہلکار کو گذشتہ ہفتے مہسا امینی کی پولیس حراست میں پراسرار موت کے بعد ملک بھر میں پھوٹنے والے مظاہروں کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب ایران بھر میں جاری مظاہروں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً دگنی ہو کر 35 ہو گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ تعداد سرکاری طور پر بیان کی گئی ہے تاہم آزاد ماہرین کے مطابق ہلاکتوں کی حقیقی تعداد اس سے کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق ایرانی پولیس نے صرف ایک صوبے میں 700 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
گوئیلان صوبے کے پولیس سربراہ جنرل عزیر اللہ مالکی نے اعلان کیا ہے کہ ’739 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں 60 خواتین‘ بھی شامل ہیں۔
22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد مسلسل آٹھ راتوں سے دارالحکومت تہران سمیت ایران کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر ہیں جہاں ان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
زیر حراست ہلاک ہونے والی کرد خاتون کو ایران کی اخلاقی پولیس نے تہران میں ’غیر مناسب‘ طریقے سے حجاب پہننے کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں کوما میں تین دن گزارنے کے بعد انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ’ملک میں حالیہ فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 17 سے بڑھ کر 35 ہو گئی ہے جن میں پانچ سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔‘
جمعے کو تہران اور تبریز سمیت دیگر بڑے شہروں اور ملک کے کئی علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں کی سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں پرتشدد واقعات دیکھے جا سکتے ہیں۔
کچھ فوٹیج میں سکیورٹی فورسز کو پیران، مہاباد اور ارمیا شہروں میں غیر مسلح مظاہرین پر گولیاں چلاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اوسلو میں قائم ایران ہیومن رائٹس کی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں سکیورٹی فورسز کا ایک وردی پوش اہلکار تہران کے علاقے فردوسی میں مظاہرین پر اے کے 47 رائفل سے گولی چلاتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
تنظیم کے مطابق ایک اور فوٹیج میں جمعے کی شب تہران کی ایک شاہراہ پر سکیورٹی فورسز کا ایک اور دھاوا دکھایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن میں اصلاح پسند اخبار شرغ کی نیلوفر حمیدی بھی شامل ہیں۔ یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مہسا امینی کی موت کی خبر دی تھی۔
دوسری جانب ایران کے وزیر داخلہ احمد واحدی کا اصرار کیا کہ امینی کو مارا پیٹا نہیں گیا تھا۔
واحدی نے جمعے کی رات ایک بیان میں کہا: کہ ’تحقیقاتی اداروں سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں، گواہوں سے انٹرویو کیے گئے، ویڈیوز کا جائزہ لیا گیا، فارنزک تجزے حاصل کیے گئے اور ان سب سے پتہ چلا کہ امینی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ایران امینی کی موت وجوہات کی تحقیقات کر رہا ہے اور ’ہمیں طبی ماہرین کی حتمی رائے کا انتظار کرنا چاہیے جس میں وقت لگتا ہے۔‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف خونی کریک ڈاؤن کے خلاف ’بامعنی کارروائی‘ کرے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے تنظیم کی ڈائریکٹر ہیبا معرف نے کہا: ’اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو بیانات سے آگے بڑھنا چاہیے اور سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ انہیں ایران میں متاثرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی انصاف کی فریاد سننا چاہیے اور فوری طور پر اقوام متحدہ کا ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے۔‘
ایران نے مظاہرین کو روکنے اور اس کے خلاف ردعمل کی تصاویر کو بیرونی دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکہ نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ سروس کو بہتر کرنے کے لیے ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا کہ نئے اقدامات ایرانی حکومت کی اپنے شہریوں کی نگرانی اور سنسر کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کریں گے۔