اینکر کے سکارف نہ پہننے پر ایرانی صدر نے انٹرویو منسوخ کر دیا

کرسٹیان امان پور نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ہفتوں کی منصوبہ بندی اور ترجمہ کرنے والے آلات کی تنصیب اور لائٹس اور کیمرے لگانے کے آٹھ گھنٹے کے بعد ہم (انٹرویو کے لیے) تیار تھے۔ لیکن صدر رئیسی کا وہاں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔‘

امریکی صحافی کرسٹیان امان پور نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایرانی صدر ابراہین رئیسی کے ساتھ انٹرویو کے سیٹ کی تصویر شیئر کی ہے جس میں ابراہیم رئیسی کے لیے مختص نشست خالی ہے۔ (@amanpour/ٹوئٹر)

نیویارک میں موجود ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے سینیئر صحافی کرسٹیان امان پور کے ساتھ ایک طے شدہ انٹرویو صرف اس لیے منسوخ کر دیا کیوں کہ خاتون اینکر نے انٹرویو کے لیے ہیڈ سکارف پہننے سے انکار کر دیا تھا۔

سی این این سے وابستہ اینکر نے اپنی کئی ٹویٹس میں اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ انٹرویو بدھ کی شب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر طے کیا گیا تھا جو صدر رئیسی کا امریکی سرزمین پر پہلا انٹرویو ہونا تھا۔

ابراہیم رئیسی کا دورہ امریکہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران بھر میں ایک 22 سالہ خاتون کی پراسرار موت کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ مہسا امینی سخت مذہبی قوانین کو نافذ کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں تھی۔

کرسٹیان امان پور نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ہفتوں کی منصوبہ بندی اور ترجمہ کرنے والے آلات کی تنصیب اور لائٹس اور کیمرے لگانے کے آٹھ گھنٹے کے بعد ہم (انٹرویو کے لیے) تیار تھے۔ لیکن صدر رئیسی کا وہاں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔‘

امان پور نے کہا کہ انٹرویو شروع ہونے کے وقت سے تقریباً 40 منٹ بعد ایرانی صدر کے ایک معاون نے ان سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں سر پر سکارف پہننے کا مشورہ دیا۔

ان کے بقول: ’میں نے شائستگی سے انکار کر دیا۔ ہم نیویارک میں ہیں جہاں ہیڈ سکارف کے حوالے سے کوئی قانون یا روایت نہیں ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ جب میں نے ایران سے باہر بھی کسی سابق ایرانی صدر کا انٹرویو کیا تو کسی کو بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ایرانی صدر کے معاون نے واضح کیا کہ اگر میں نے سر پر سکارف نہیں لیا تو یہ انٹرویو نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’احترام کا معاملہ‘ ہے اور انہوں نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی صورت حال کا حوالہ دیا۔‘

امان پور نے پھر کہا کہ وہ اس ’غیر معمولی اور غیر متوقع شرط‘ سے اتفاق نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’اس طرح ہم وہاں سے چلے گئے اور یہ انٹرویو نہیں ہوا۔ چونکہ ایران میں احتجاج جاری ہے اور لوگ مارے جا رہے ہیں اس لیے صدر رئیسی کے ساتھ بات کرنا ایک اہم لمحہ ہوتا۔‘

مہسا امینی کی موت کے بعد پورے ایران میں مظاہرے پھیل گئے جنہیں اخلاقی پولیس نے خواتین کے لیے ملک کے سخت لباس قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گذشتہ ہفتے منگل کو حراست میں لیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی پولیس نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ ان کی موت  مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے لیکن امینی کے اہل خانہ نے اس دعوے پر شک ظاہر کیا ہے۔

عینی شاہدین نے مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے امینی پر تشدد ہوتے دیکھا اور ان کے ہسپتال کے بستر سے شیئر کی گئی تصاویر میں اس کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا اور ان کی آنکھوں کے نیچے زخم تھے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق کم از کم 12 شہروں میں مظاہرے شروع ہونے کے بعد ایرانی حکام نے انٹرنیٹ تک رسائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے اور انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر بندش کی اطلاعات بھی دی گئی ہیں۔

ایران میں مظاہروں کی شدت بڑھ گئی ہے اور بعض جگہوں پر امینی کی موت پر عوامی غم و غصے سے ایرانی حکومت کو براہ راست خطرہ پیدا ہو گیا ہو۔

آن لائن پوسٹ کی گئی کئی ویڈیوز میں مظاہرین ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا