عدالت کا سارہ قتل کیس میں گرفتار صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم

عدالت نے سارہ قتل کیس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم شاہنواز کے والد اور معروف صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایاز امیر 25 ستمبر کو عدالت میں پیش ہوتے ہوئے (سکرین گریب)

اسلام آباد کی مقامی عدالت کے سینیئر سول جج محمد عامر عزیز نے ایاز امیر کے وکیل کی درخواست پر انہیں سارہ انعام قتل کیس سے کوئی ثبوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

پولیس نے ایاز امیر کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر عدالت کے سامنے پیش کیا۔ سماعت کے دوران ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سارہ کے قتل کے واقعے سے ایاز امیر کا کوئی تعلق نہیں، قتل کا واقعہ پیش آنے کے وقت ایاز امیر چکوال میں اپنے گھر میں موجود تھے۔ واقعے کا علم ہونے کے بعد انہوں نے پولیس کو اطلاع دی جبکہ جس فارم ہاؤس پر قتل ہوا، اس سے گذشتہ 35 سال سے ایاز امیر کا کوئی تعلق نہیں۔ 

وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس تاحال یہ بھی نہیں بتا سکی کہ کن شواہد کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’کوئی ایسا ایکٹ بتا دیں جس سے ثابت ہو کہ ایاز امیر قتل میں  ملوث ہیں۔‘

وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ ’مقدمہ 23 ستمبر کو تین گھنٹے بعد درج ہوا، اور انگلینڈ سے اگر بندہ آ رہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں۔‘

وکیل نے عدالت کو ایاز امیر کو قتل کے مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔ اس کے بعد پراسکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایاز امیر کو مقتولہ سارہ کے چچا کے درخواست پر نامزد کیا گیا ہے جو پاکستان میں موجود ہیں۔

تفتیشی افسر نے ایاز امیر کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم شاہنواز کا اپنے والد ایاز امیر سے رابطہ ہوا تھا جبکہ مقتولہ کے والد بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ہم معاملے کی مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

سرکاری وکیل نے عدالت سےدرخواست کی کہ ایاز امیر کے خلاف شواہد اور ملوث ہونے سے متعلق اعتراضات اور ساری باتیں ٹرائل کی ہیں، ریمانڈ سٹیج پر دیکھا جائے کیا ثبوت آئے ہیں۔ ’کل مقتولہ کے والدین آئے ہیں انہوں نے تدفین بھی کرنی ہے، یہ ثبوت موجود ہے کہ ایاز امیر کا شاہنواز سے وٹس ایپ پر رابطہ ہوا تھا، اگر ایاز امیر بےگناہ ثابت ہوتے ہیں تو انہیں ڈسچارج کر دیں گے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم ایاز امیر کے خلاف بادی النظر میں کیا ثبوت ہیں؟‘ 

اس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ سارہ کے والدین کے پاس سارے ثبوت ہیں۔ اس پر ایاز امیر کے وکیل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے؟ پولیس نے ثبوت اکٹھےکرنے سے پہلے ہی ایاز امیر کو گرفتار کر لیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایاز امیر کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے ایاز امیر کو ڈسچارج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ایاز امیر کے خلاف صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں، انہیں رہا کیا جائے۔‘

بعد ازاں ایاز امیر کو اسلام آباد کچہری بخشی خانہ سے ہی رہا کر دیا گیا۔

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے ملزم شاہنواز کے قبضہ سے غیر قانونی اسلحہ اور مقتولہ سارہ انعام کا پرس فارم ہاؤس سے برآمد کیا ہے۔ پولیس نے مقتولہ کے پرس سے نقدی، ان کی شرٹ اور مختلف بنک کارڈز اور ڈیبٹ کارڈ بھی برآمد کیے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق ملزم نے  مختلف اوقات میں مقتولہ سے بیرون ملک سے رقم بھی منگوائی۔

پولیس کے مطابق ملزم کے فارم ہاؤس سے مقتولہ کے پیسوں سے خریدی گئی مرسیڈیز کار بھی برآمد کی گئی ہے لیکن مقتولہ کا پاسپورٹ اور موبائل فون تاحال نہیں مل سکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان