آڈیو لیکس اور عمران خان کا انجام

عمران خان ان آڈیوز کا ذمہ دار حریف جماعت مسلم لیگ ن کو قرار دے رہے ہیں لیکن اندر سے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ کام ان کی حریف جماعتوں کا نہیں ہے۔

فی الوقت عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے بہترین آپشن پارلیمان میں واپسی، غیر ضروری جارحانہ پالیسی سے گریز اور ’انتظار فرمائیے‘ کی سیاسی بصیرت کی موجودگی ہے (تصویر: عمران خان آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

کالم لکھنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ جناب کپتان صاحب کی تازہ ترین دو نئی آڈیوز نمودار ہو گئیں۔

ایک میں وہی سائفر کی کہانی اور دوسری میں عدم اعتماد سے قبل خان صاحب کے ’آخری گیند‘ سے پہلے کے پینتروں کے راز فاش کیے گئے، جن کے مطابق عمران خان نے عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے پانچ اراکین پارلیمان خرید لیے اور مزید پانچ کی تلاش جاری تھی۔

ان پانچ میں سے تین کا تعلق پنجاب سے، ایک کا سندھ اور ایک کا خیبرپختونخوا سے تھا اور جن کے ذریعے یہ کارروائی ڈالی گئی وہ بھی کچھ ایسا بڑا راز نہیں۔

آڈیو میں کپتان صاحب کس کو غائبانہ مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ مزید پانچ اراکین پارلیمان بھی خرید دے توگیم بدل جائے گی، یہ راز فی الحال تو مجھے راز ہی رکھنے دیجیے لیکن عنقریب اس بابت بھی کچھ اور چیزیں کھلنے والی ہیں۔

خبر تو یہ ہےکہ خان صاحب کی طرف سے بولی منہ مانگے دام کی لگائی گئی اور ریٹ 50 سے لے کر 80، 90 کروڑ روپے تک کا آفر کیا گیا۔ اب سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کے پاس یا پی ٹی آئی کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا یا کہاں سے آتا؟ کیا اس کے لیے سرکاری ذرائع اور وسائل استعمال کیے گیے یا خفیہ طریقے سے موصول شدہ رقم بھی اس ’جہادی کارِ خیر‘ میں ڈالی گئی؟

 کچھ ’چندہ‘ بہرحال پارٹی کے مخیر حضرات کی طرف سے بھی ٹیلی تھون کے دوران دان کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ عمران خان ان آڈیوز کا ذمہ دار حریف جماعت مسلم لیگ ن کو قرار دے رہے ہیں لیکن اندر سے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ کام ان کی حریف جماعتوں کا نہیں ہے۔

جہاں سے لیکس آ رہی ہیں، وہاں خان صاحب کی حقیقی آزادی کے بیانیے کے منہ پر تالے لگے ہیں۔ فی الحال ان لیکس کا واحد مقصد عمران خان کو ایک واضح اور کھلی وارننگ دینا ہے۔ اس پیغام کو کتنی جلد خان صاحب وصول اور قبول کرتے ہیں آئندہ کی آڈیو لیکس کے سلسلے کے تھمنے کا دارومدار اسی فیصلے پر ہو گا۔

یہ بھید تو ویسے بھی اب زبان زد عام ہو چکا کہ خان صاحب کی آڈیوز کا ایک انبارِ بےشمار ہے، جس میں بھانت بھانت کی ایسی ایسی بولیاں ہیں کہ دفاع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے۔

اڑتی اڑتی کچھ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ خان صاحب اور محترمہ بشریٰ بی بی صاحبہ کی کچھ ایسی خطرناک قسم کی مختلف ادوار اور مواقع کی ایسی گفتگو بھی ہے جو اگر لیک ہو گئی تو اچھا خاصا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے، لیکن کیا ان آڈیو لیکس کے دباؤ میں آ کر عمران خان لانگ مارچ سے یوٹرن لے سکتے ہیں اور اچھے بچے کی مانند پارلیمان میں آ کر سیاست کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت نے تو آزمودہ چال قبل از وقت ہی چل دی ہے اور ممکنہ لانگ مارچ و دھرنے کی صورت میں اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مئی کے لانگ مارچ کی پیش قدمی بھی اسلام آباد میں فوج تعیناتی کے عنصر کے باعث جناح ایونیو سے ہی یوٹرن لینے پر مجبور ہو گئی تھی اور ’جناح کے عمرانی وژن‘ کے مطابق  نئے پاکستان کی تشکیل بس چند فرلانگ دور سے ہی الٹے پاؤں واپس ہو لی تھی۔

اس بار بھی صورت حال کچھ خاص مختلف ہوتی نظر تو نہیں آتی لیکن اس کا بڑا دارومدار پنجاب اور خیبرپختونخوا سے عوام کے نکلنے پر ہو گا۔ مئی کے لانگ مارچ میں تو پنجاب چھوڑیے، پی ٹی آئی کے دس سالہ گڑھ خیبرپختونخوا سے بھی عوام نہیں نکلے تھے۔

گذشتہ بار عذر اگرچہ پنجاب میں حریف جماعت کی حکومت ہونے اور رانا ثنا اللہ کے کڑے ہتھکنڈوں کا تھا تو اس بار پی ٹی آئی کی اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے پنجاب کیا بھرپور انداز میں عمران خان کے ساتھ باہر نکلے گا؟ اس کا حتمی جواب فی الحال خود پی ٹی آئی بھی پریقین انداز میں نہیں دے سکتی۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ پر بھی نظر رکھیے، ہو سکتا ہے کچھ ایسا ویسا ہو جائے کہ تحریک انصاف خود حیران پریشان رہ جائے۔ دوسرا تحریک کے اپنے اندر لانگ مارچ اور دھرنے کو لے کر بھرپور تقسیم موجودہے۔ ایک بڑا دھڑا ہے جو فی الحال لانگ مارچ نہیں چاہتا اور عین ممکن ہے کہ اس دھڑے کی بدولت پنجاب اور خیبرپختونخوا سے عوام کی تعداد تقسیم ہو جائے۔

بالفرض لانگ مارچ کے لیے مناسب تعداد میں عوام اکٹھے کر بھی لیے جاتے ہیں لیکن انتظامی طور پر اسلام آباد میں داخلہ نہیں ملتا تو عمران خان کے لیے شہر اقتدار کے داخلی راستے پر ہی سیاسی بند گلی نمودار ہو جائے گی۔

ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے قرین قیاس تو یہی ہے کہ گذشتہ بار کی مانند اس مرتبہ بھی عمران خان عدالت سے رجوع کریں اور احتجاج اسلام آباد کے اندر لانے کی اجازت حاصل کر سکیں۔ ایسا اگر ممکن ہو بھی جاتا ہے تب بھی خان صاحب کے لیے لانگ مارچ یا دھرنے کے نتیجے میں اپنے مطالبات منوانے کی کامیابی کے امکانات صفر کے قریب ہیں۔

فی الوقت عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے بہترین آپشن پارلیمان میں واپسی، غیر ضروری جارحانہ پالیسی سے گریز اور ’انتظار فرمائیے‘ کی سیاسی بصیرت کی موجودگی ہے۔ عمران خان کو ایک میچ میں شکست ہوئی ہے، میدان میں واپسی کے راستے تاحال بند نہیں ہوئے۔

اب بھی وقت ہے، کپتان اگر اپنی حکمت عملی تبدیل کر لیں تو مزید بگاڑ سے بچا جا سکتا ہے وگرنہ آنے والا ہر میچ بری طرح ہارتے ہی جائیں گے کیونکہ بھلے کپتان کرکٹ کے کتنے ہی ماہر کھلاڑی کیوں نہ ہوں، رولز آف دی گیم طے کرنے کے مجاز قرار نہیں دیے جا سکتے کیونکہ طاقت کا حتمی توازن بہرحال نظام کے ہاتھ میں ہی ہے اور یہی قانونِ بقا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ