بابوسر ٹاپ: ’صوبائی وزیر اغوا نہیں ہوئے‘

گلگت بلتستان حکومت نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب بابو سر ٹاپ کو بند کرنے والے مظاہرین کی جانب سے صوبائی وزیر خزانہ کرنل (ر) عبید اللہ بیگ کے اغوا یا یرغمال بنائے جانے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔

ترجمان گلگت بلتستان شمس الرحمان کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر خزانہ  کرنل (ر) عبید اللہ بیگ (گرے رنگ کے کوٹ میں) حکومت کی طرف سے مظاہرین سے مذاکرات کرنے اور سڑک کھلوانے کے لیے وہاں موجود تھے (عمران اللہ مشعل)

گلگت بلتستان حکومت نے جمعے کو بابو سر ٹاپ کو بند کرنے والے مظاہرین کی جانب سے صوبائی وزیر خزانہ کرنل (ر) عبید اللہ بیگ کے اغوا یا یرغمال بنائے جانے سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے بعد سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے۔

جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات چلاس کے مقام پر کچھ مظاہرین نے بابو سر ٹاپ پر سڑک کو بلاک کر دیا تھا، جس کے باعث سیاحوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پھنس گئی تھی۔

صوبائی وزیر خزانہ عبید اللہ بیگ، جو اسلام آباد سے گلگت جا رہے تھے، کی گاڑی بھی سڑک بند ہونے کے باعث ٹریفک میں پھنس گئی تھی، جس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ صوبائی وزیر کو ان کے بیٹے سمیت مقامی شدت پسند گروپ نے اغوا کر لیا۔

تاہم گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کے ڈپٹی ڈائریکٹر شمس الرحمان نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں صوبائی وزیر کی اغوا سے متعلق اطلاعات کی تردید کی۔

شمس الرحمان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ شاہراہ بابو سر پر جل تھانہ کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاج کر رہے تھے، جس کے باعث وہاں سے گاڑیوں کا گزرنا بند تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مظاہرین گلگت کی مناور جیل میں قید سانحہ نانگا پربت اور ساںحہ چلاس میں ملوث افراد کے ساتھی تھے، جو گرفتار افراد کی چلاس جیل منتقلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

شمس الرحمان نے مزید بتایا کہ اسی دوران سینیئر صوبائی وزیر کرنل (ر) عبیداللہ بیگ اور دو غیر ملکی سیاح اسلام آباد سے گلگت سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو مظاہرین نے ان کی گاڑیوں کو روک کر اپنے ساتھیوں کی رہائی اور چلاس جیل منتقلی کا مطالبہ کیا۔

بقول شمس الرحمان: ’صوبائی وزیر نے مظاہرین سے خطاب بھی کیا اور بتایا کہ یہ عدالتی معاملہ ہے اور حکومت اس مسئلے پر اعلیٰ سطح پر مزید تحقیقات کروائے گی اور اگر کوئی بے گناہ قید کیا گیا ہے تو اس کو رہا کیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر حکومتی نمائندے کی حیثیت سے مذاکرات کرنے اور سڑک کھلوانے کے لیے مظاہرین کے درمیان موجود تھے۔

شمس الرحمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سڑک بلاک کرنے والوں کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں بلکہ وہ سانحہ نانگا پربت میں ملوث افراد کے رشتہ دار اور عزیز تھے۔‘

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ سڑک بلاک کرنے والوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے۔

تاہم گلگت بلتستان ٹورزم پولیس کے اہلکار عنایت خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ’احتجاج کرنے والوں کا تعلق ایک مقامی شدت پسند تنظیم سے تھا۔‘

اس غیر معروف تنظیم کا نام ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ بتایا جارہا ہے۔

عنایت خان نے مزید بتایا کہ مظاہرین کے ساتھ رات گئے تک مذاکرات ہوتے رہے اور بعد ازاں سڑک کھول دی گئی تھی۔  

مقامی شدت پسند تنظیم کون سی تھی؟

جون 2013 میں ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے جنگجو رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نانگا پربت بیس کیمپ میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے وہاں سوئے ہوئے ایک امریکی شہری سمیت دس غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکسان (ٹی ٹی پی) نے اپنے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ذریعے قبول کی تھی اور غیر ملکی سیاحوں کے قتل کو ٹی ٹی پی کمانڈر ولی الرحمان کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا ردعمل قرار دیا تھا۔

بعدازاں اس واقعے میں ملوث تقریباً 20 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ نانگا پربت واقعے کا ایک ملزم حبیب الرحمان 2015 میں گلگت بلتستان جیل سے فرار ہو گیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب گذشتہ رات بابو سر ٹاپ پر مظاہرے کو ایک غیر معروف مقامی شدت پسند تنظیم ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ کے نام سے جوڑا جا رہا ہے، جس کے ایک کمانڈر حبیب الرحمان کی ایک ویڈیو گذشتہ سال منظر عام پر آئی تھی، جس میں تنظیم کی جانب سے بابو سر ٹاپ کے آس پاس کھلی کچہری کا انعقاد دکھایا گیا تھا۔

ویڈیو میں خود کو کمانڈر حبیب الرحمان کے طور متعارف کروانے والے شخص نے حکومت پاکستان سے تنظیم کے ساتھ 2019 میں طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا۔

نانگا پربت واقعے کی ذمہ داری ’جنود الحفصہ‘ نامی تنظیم نے بھی قبول کی تھی۔

گذشتہ سال ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے ٹوئٹر پر کمانڈر حبیب الرحمان کی ویڈیو اپ لوڈ کی تھی اور ساتھ میں بتایا تھا کہ نانگا پربت واقعے میں گرفتار حبیب الرحمان سمیت جنود الحفصہ نامی تنظیم کے 15 افراد کو ایک معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

تاہم معاہدے کے تحت نانگا پربت واقعے میں ملوث افراد کی کسی معاہدے کے تحت رہائی سے متعلق سرکاری تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان