رانا ثنا اللہ کے وارنٹ، اینٹی کرپشن ٹیم کو ریکارڈ دینا ہوگا: اسلام آباد پولیس

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اگر اینٹی کرپشن ٹیم آئی تو ان سے کاغذات وصول کرتے ہوئے درخواست کی جائے گی کہ وہ وارنٹ گرفتاری کی تکمیل کے لیے ریکارڈ مہیا کرے۔

رانا ثنا اللہ کے خلاف گجرات کے ایک پولیس سٹیشن میں بھی ایک مقدمہ درج ہے (رانا ثنا اللہ/ فیس بک پیج)

راولپنڈی کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے ہفتے کو پنجاب کے محکمہ انسداد کرپشن میں درج ایک مقدمے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

وارنٹ جاری ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار نے کہا کہ پنجاب پولیس کی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو رانا ثنااللہ کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ ہو چکی۔

تاہم اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اگر اینٹی کرپشن ٹیم اسلام آباد کے متعلقہ تھانے آئی تو ان سے کاغذات وصول کرتے ہوئے درخواست کی جائے گی کہ وہ وارنٹ گرفتاری کی تکمیل کے لیے ریکارڈ مہیا کرے تاکہ قانون کے مطابق عمل کیا جا سکے۔

ترجمان اینٹی کرپشن عبدالواحد نے بتایا کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمہ درج ہے، جس میں انہوں نے بسم اللہ ہاؤسنگ سوسائٹی کلر کہار میں ایک پلاٹ اپنے نام اور دوسرا اپنی اہلیہ کے نام ٹرانسفر کروایا مگر ان پلاٹوں کی سرکاری ٹرانسفر فیس ادا نہیں کی۔

مقدمہ نمبر 20/19 کے مطابق: ’یہ پلاٹ انہوں نے کسی کام کے عوض رشوت میں لیے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس مقدمے میں عدالت نے انہیں بار بار طلبی کے نوٹس جاری کیے لیکن وہ پیش نہ ہوئے لہٰذا ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔

واضح رہے رانا ثنا اللہ کے خلاف گجرات کے ایک پولیس سٹیشن میں بھی ایک مقدمہ درج ہے۔

کیا وفاقی وزیر داخلہ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے؟

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وفاقی وزیر داخلہ، جن کے ماتحت اپنی پولیس بھی ہے، کو کسی صوبے میں باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اور وفاقی وزیر داخلہ کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے پاس اگر قانونی جواز ہو تو انہیں کہیں سے بھی گرفتار کر سکتی ہے۔

’اگر پولیس عدالت سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیتی ہے تو پھر وہ گرفتاری کا جواز رکھتی ہے۔‘

سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کے بقول وفاقی وزیر داخلہ کو قانونی طور پر گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن رینجر اور اسلام آباد پولیس براہ راست ان کے ماتحت اور ان کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر کو صوبائی پولیس سکیورٹی دینے کی پابند ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اپنی سکیورٹی بھی موجود رہتی ہے لہٰذا پنجاب پولیس کے لیے اس طرح کی سکیورٹی میں وزیر داخلہ کی مرضی کے بغیر گرفتار کرنا آسان نہیں ہوتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان