کرم میں کشیدگی: فریقین کے مابین حالیہ تنازع کیسے شروع ہوا؟

ضلع کرم کی تحصیل پاڑا چنار میں دو مذہبی فرقوں کے مابین زمینی تنازعے کی وجہ سے حالات گذشتہ دو روز سے کشیدہ ہیں اور علاقہ مکینوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

ضلع کرم کی تحصیل پاڑا چناڑ میں زمینی تنازعے کے حل کے لیے علاقہ مکین احتجاج میں شریک ہیں (ارشاد حسین)

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں دو مذہبی فرقوں کے مابین زمینی تنازعے کی وجہ سے حالات گذشتہ دو روز سے کشیدہ ہیں اور علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے حالات کو قابو نہیں کیا تو خدانخواستہ دونوں فریقین کے مابین معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

تاہم ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ ایک زمینی تنازع ہے لیکن اس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جارہا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری پیغام میں بتایا گیا کہ گذشتہ روز دو گروپوں میں فائرنگ اور ناخوشگوار واقعات دراصل ایک زمینی تنازعے کا تسلسل ہے جس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔

پیغام میں بتایا گیا: ’ضلعی انتظامیہ، متعلقہ سکیورٹی ادارے اور علاقے کے عمائدین اس مسئلے کا پر امن اور دیرپا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ عوام کسی قسم کی بے بنیاد افواہوں پر کان نہ دھریں۔‘

دوسری جانب اہل تشیع اور سنی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خوف ہے کہ دونوں اطراف سے فریقین مورچہ زن ہوگئے ہیں اور گذشتہ دو دن سے لڑائی میں بھاری ہتھیار کا استعمال بھی ہوا ہے۔

تنازع ہے کیا؟

یہ تنازع ضلع کرم کی تحصیل پاڑا چنار کے علاقے بوشہرہ اور ڈنڈر کے مقام پر زمین کی ملکیت کے معاملے پر پیش آیا، جہاں اہل تشیع آبادی زیادہ ہے۔

اس علاقے سے تعلق رکھنے والے صحافی ارشاد حسین نے انڈپینڈںٹ اردو کو فون پر بتایا کہ یہ تنازع سنی بنگش اور شیعہ بنگش برادری کے مابین زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے معاملے پر پیش آیا۔

انہوں نے بتایا کہ جس زمین پر تنازع ہے، اس کا محکمہ مال کے پاس بھی ریکارڈ موجود ہے اور سنی اور شیعہ بنگش دونوں کو اپنی اپنی زمین کا پتہ ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اس زمین کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل کرنے میں ناکام ہے۔

ارشاد نے بتایا: ’ڈنڈر اور بوشہرہ دونوں میں شاملات موجود ہیں۔ بوشہرہ میں سنی لوگوں نے اسی زمین میں فصلیں بوئی ہوئی تھیں جبکہ ڈنڈر میں دوسرے فریق نے بھی فصلیں بو رکھی ہیں۔ اسی پر دونوں فریقین کے مابین لڑائی شروع ہوئی اور پھر یہ معاملہ بھاری ہھتیاروں کے استعمال تک پہنچ گیا۔‘

اس تنازعے کے بارے میں سنی اکثریت والے علاقے صدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نبی جان اورکزئی، جو اس وقت وہاں علاقے میں موجود ہے، نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’معاملہ زمین کا ہے لیکن اسے اہل تشیع اور سنی افراد کے مابین لڑائی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔‘

نبی جان نے بتایا: ’اسی سلسلے میں سنی علاقوں سے رکھنے والے کچھ سماجی کارکنوں نے پاڑا چنار پریس کلب کے سامنے امن واک بھی کی اور اس کا مقصد یہی تھا کہ زمینی تنازعے کو فرقہ واریت کا رنگ نہ دیا جائے۔‘

یاد رہے کہ ماضی میں ضلع کرم شیعہ اور سنی فرقہ واریت کا گڑھ رہا ہے جس میں ہزاروں جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں جبکہ سنی علاقوں میں اہل تشیع جبکہ اہل تشیع کے علاقوں میں سنی افراد نے ایک دوسرے کے گھر تک مسمار کیے تھے۔ اگرچہ اب حالات معمول پر آ گئے ہیں لیکن گاہے بگاہے اس علاقے میں ایسے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں، جس سے معاملات شیعہ سنی فرقہ واریت کی طرف چلے جاتے ہیں۔

نبی جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں سنی علاقے میں موجود ہوں اور حالیہ تنازعے کے بارے میں 80 فیصد لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ یہ تنازع زمین کا تنازع ہے، جو ہر کسی کو پتہ ہے، لیکن بعض شر پسند عناصر اسے فرقہ واریت کا رنگ دیتے ہیں، جو علاقے کے امن کو خراب کرنے کے در پے ہے۔

ضلعی انتظامیہ کا کیا موقف ہے؟

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر واصل خٹک نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ اس تنازعے کے حل کے لیے بنایا گیا کمیشن پہلے سے ہی موجود ہے اور پولیس کو علاقے میں تعینات کردیا گیا ہے۔

واصل خٹک نے بتایا: ’اس واقعے میں ایک فریق کی جانب سے اس زمین پر تعمیرات کا آغاز کیا گیا تھا جو کمیشن کی خلاف ورزی تھی، جسے بعد میں پولیس نے روک دیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ڈپٹی کمشنر سے پوچھا گیا کہ اگر یہ تنازع پہلے سے موجود ہے، تو ضعلی انتظامیہ اسے حل کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ تاہم ڈپٹی کمشنر نے کوئی موقف نہیں دیا۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کے حل کے لیے آج جرگے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے، جس میں ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور قبائلی مشران کو مدعو کیا گیا ہے۔

پاڑا چنار سے تعلق رکھنے والے جرگے کے رکن عابد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’حقیقت یہ ہے کہ سنی بنگش اور شیعہ بنگش ایک ہی گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کے آپس میں معاہدے بھی موجود ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اب جس شاملاتی زمین پر ان کا تنازع ہے، اسی شاملاتی زمین پر حمزہ خیل اور مستو خیل قبیلے بھی دعویٰ کرتے ہیں، جس پر کل لڑائی ہوئی ہے جبکہ یہ تنازع گذشتہ کئی دنوں سے چلا آ رہا ہے۔‘

عابد حسین نے مزید بتایا: ’چند دن پہلے فریقین مورچہ زن ہوئے تھے اور اس سلسلے میں وہاں جرگہ بھی ہوا تھا جبکہ زمین میں دونوں فریقین کی جانب سے تعمیراتی کام کو تالے بھی لگائے گئے تھے لیکن 12 ربیع الاول کو ایک فریق کی جانب سے متنازع زمین پر گندم بوئی گئی، جس پر معاملہ دوبارہ بگڑ گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اسی دوران ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی آگئی۔ معاملہ اب بھی حل نہیں ہوا ہے، تاہم جرگہ ممبران اور ضلعی انتظامیہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ضلع کرم میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر 16 اکتوبر کو ضمنی انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں لیکن سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انتخابات کو ملتوی کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان محمد سہیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ روز الیکشن کمیشن کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، جس میں کرم کے ضمنی انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا اور انتخابات کی اگلی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان