گھوٹکی ضمنی الیکشن: ماموں بھانجے میں سرداری کے لیے مقابلہ

سندھ کے ضلع گھوٹکی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 205 پر ضمنی انتخاب آج ہو رہے ہیں۔

پی پی پی کے امیدوار سردار محمد بخش خان مہر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے (تصویر رب نواز بلوچ)

سندھ کے ضلع گھوٹکی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 205 پر ضمنی انتخاب آج (منگل) ہو رہے ہیں۔

یہ حلقہ گھوٹکی ضلع کی تحصیل خانپور مہر اور تحصیل گھوٹکی پر مشتمل ہے۔ ضمنی انتخاب میں تین لاکھ 39ہزار 699 ووٹرز کے لیے285 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار، وزیر اعلیٰ سندھ کے سابقہ کھیل، صعنت اور امورِ نوجوان کے مشیر اور مہر خاندان کے سردار محمد بخش خان مہر اور آزاد امیدوار احمد علی مہر کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

2018 کے جنرل الیکشن میں اس سیٹ پر جیتنے والے سابق وفاقی وزیر علی محمد خان مہر مئی 2019 میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے تھے۔ پچھلے عام انتخابات میں صوبے کی حکمران جماعت پی پی پی نے آخری وقت میں علی محمد خان مہر کو پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کر کے ٹکٹ سردار محمد بخش مہر کو دے  دیا، جس کے بعد علی محمد خان مہر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑے اور جیت گئے تھے۔

بعد میں وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو کر ستمبر 2018 میں وفاقی وزیر بن گئے تھے۔ ان کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس سیٹ پر آج ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔

اس حلقے میں 18 جولائی کو ضمنی انتخاب ہونے تھے مگر سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ میں دائر ایک پیٹیشن کے باعث بیلٹ پیپرز کی چھپائی میں دیر ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے نوٹیفیکیشن جاری کر کے 23 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔

گھوٹکی کی تاریخ میں پہلی بار علاقے کے انتہائی سیاسی طاقتور مہر خاندان کے دو لوگ، جو آپس میں ماموں بھانجے بھی ہیں، ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پی پی پی کے امیدوار سردار محمد بخش خان آزاد امیدوار احمد علی مہر کے ماموں ہیں۔ دونوں نوجوان اور 30 سال سے کم عمر ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ مہر خاندان میں سرداری کے حصول کے جاری تنازعے کا آخری فیصلہ آج ہونے والے ضمنی انتخاب سے ہوگا۔

سندھ ٹی وی کے اینکر پرسن فیاض نائچ کا کہنا ہے کہ مہر خاندان کی رسم کے مطابق پی پی پی کے امیدوار محمد بخش خان مہر کے سر پر خاندانی پگ (پگڑی) ہے اور وہ مہر برادری کے سردار ہیں مگر وہ صرف نام کے سردار ہیں، اصل فیصلے آزاد امیدوار احمد علی مہر کے چچا علی گوہر خان مہر ہی کرتے ہیں۔

بقول فیاض نائچ: ’اس الیکشن میں سیاسی طور پر آزاد امیدوار احمد علی مہر کو پاکستان تحریک انصاف سپورٹ کر رہی ہے اور سردار محمد بخش خان پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں، اس طرح بظاہر یہ ضمنی الیکشن پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیاں مقابلہ ہے، مگر الیکشن جیتنے والے کو مہر برادری کی اصل سرداری کرنے کا اعزاز ملے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ میں بسنے والے بلوچ نژاد سندھیوں میں قبائلی نظام کے ساتھ سرداری نظام بھی مضبوط ہے۔ اسی نظام کو سردار اپنی سیاسی طاقت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ غیر بلوچ سندھیوں میں، جنھیں سماٹ کہا جاتا ہے، قبائلی نظام اور سرداری نظام نہیں۔

مہر برادری بھی سماٹ سندھی ہے، مگر اس کے باوجود شمالی سندھ میں مہر برادری میں بھی سرداری نظام رائج ہو چکا ہے۔

سماٹ سندھیوں کی جانب سے سرداری نظام رائج کرنے کے اسباب پر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل سانگی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’شمالی سندھ میں بلوچ نژاد سندھیوں میں رائج طاقتور قبائلی اور سرداری نظام کے بعد وہاں کی سماٹ برادریوں نے بھی اثر لیا اور انہوں نے بھی یہ نظام متعارف کروائے۔ بصورت و دیگر سماٹ سندھیوں میں سرداری نظام کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔‘

فیاض نائچ کے مطابق یہ الیکشن آزاد امیدوار احمد علی مہر کو خاندانی طور پر سپورٹ کرنے والے ان کے چچا علی گوہر خان مہر کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ وہ پگ (پگڑی) نہ ہونے کے باوجود کافی عرصے سے سرداری چلا رہے تھے۔ اگر ان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار احمد علی مہر ہار جاتے ہیں تو وہ مکمل طور پر سرداری سے باہر ہوجائیں گے اور سردار محمد بخش خان مہر نہ صرف ایک خودمختیار سردار بن جائیں گے بلکہ مہر خاندان کی سیاسی قوت کا بھی کنٹرول ان کے پاس چلا جائے گا۔

فیاض نائچ کے مطابق پی پی پی کے امیدوار سردار محمد بخش خان مہر کے جیتنے کے زیادہ امکان ہیں۔ ’سردار محمد بخش خان مہر کی پوزیشن احمد علی خان مہر سے اچھی نظر آتی ہے۔ ایک تو مہر برادری کے اپنے ووٹوں کا آدھا حصہ ان کو مل جائے گا، اس کے علاوہ پی پی پی کی ووٹر برادریاں بھی مل جائیں گی، جیسے کہ دھاریجو، لوند، سندرانی، پتافی جو کہ مہر خاندان کے مخالف تھے مگر اب پی پی پی ٹکٹ ہونے کے باعث سردار محمد بخش خان مہر کو ووٹ دیں گئی۔

اسی طرح جمعیت علما اسلام ف نے بھی ان کی حمایت کی ہے جبکہ احمد علی خان مہر کو مہر برادری کے آدھے ووٹ اور مہر خاندان کی حمایت کرنے والی برادریاں جیسے لکھن، بزدار، چاچڑ، گھوٹا کا ووٹ ملے گا۔‘

صوبے میں حکمراں پارٹی اس سیٹ کے لیے حد سے زیادہ سنجیدہ نظر آتی ہے۔ ضمنی الیکشن کے لیے پی پی پی نے سندھ اسمبلی کے دو وزرا ناصر شاہ اور باری پتافی کو استعفیٰ دلا کر سردار محمد بخش خان مہر کو سپورٹ کرنے کا ٹاسک دیا۔

اس کے علاوہ بلاول بھٹو نے خود سردار محمد بخش خان مہر کی الیکشن مہم کے لیے جلسے کیے۔ حتیٰ کہ انہوں نے پنو عاقل میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنوعاقل چھاؤنی لوگوں کے مدد کرنے کی لیے بنائی گئی تھی مگر اب یہ چھاؤنی سیاست میں ملوث ہو رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست