جب اچھو نے پدم ناگ سے مقابلہ کیا

اچھو کا پاؤں رپٹا اور دھم سے منہ کے بل جا گرا۔ سانپ اُس کے پاؤں کے بیچ سے نکل گیا۔ اُس پر اُس نے ایسی چیخیں ماریں کہ پہلے ہمارے فرشتوں نے بھی نہ سُنی ہوں گی۔

(پکسا بے)

سخت گرمیوں کے دن تھے۔ مَیں دس بارہ سال کا ہوں گا، میرا چھوٹا بھائی علی اصغر مجھ سے تین سال چھوٹا تھا۔ اُن دِنوں ہمارے پاس چار بھینسیں تھیں جن کا چارا مجھے اور میرے بھائی کو پورا کرنا ہوتا تھا۔

ہمارے گھر کے ساتھ ہی چراغ دین کا گھر تھا۔ اُس کے سات بیٹے تھے، اِن کے متعلق مَیں نے ایک افسانہ بھی لکھا ہے جو میرے پہلے افسانوی مجموعے ’قائم دین‘ میں شامل ہے۔

اچھو اُن بھائیوں میں نہایت جی دار آدمی تھا۔ فُٹ بال کا بہترین کھلاڑی اور گالیاں دینے کا ماسٹر ایسا تھا کہ اکثر گالیوں کے مقابلے اُس نے جیتے۔

اُس جیسی منتخب گالی میں نے آج تک کسی کی زبان سے نہیں سُنی۔ گاؤں کے شمال مغرب میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے چارے کے کھیت تھے۔ اچھو اور ہم دونوں بھائی سورج کے سوا نیزے پر آتے ہی اپنے اپنے گدھوں پر واہنے رکھتے اور چارا لینے چل نکلتے۔

سورج کی اَنی پر اس لیے نکلتے کہ اُس سے پہلے اچھو کو ایک جگہ دوپہر تک مزدوری کرنا ہوتی تھی اور ہمیں سکول جانا ہوتا تھا۔ مَیں اور میرا بھائی علی اصغر ایک گدھے پر واہنے کے آر پار بیٹھ جاتے اور اچھو اپنے گدھے پر بیٹھ جاتا۔ ہوتا یہ کہ جیسے ہی گدھے ڈھچکو ڈھچکو چلنا شروع ہوتے، اچھو کسی پنجابی فلم کی سٹوری سنانا شروع کر دیتا یا پھر اپنی زندگی میں بہادری کا کوئی کارنامہ سناتا چلا جاتا۔

اُس کے قصے اتنے دلچسپ ہوتے کہ ہم دونوں بھائی باوجود دوزخ جیسی دھوپ اور گرمی کے، اُس کی ہمراہی کے بغیر چارا لینے نہ جاتے۔ گدھے آگے پیچھے چلے جاتے اور ہم اُن پر بیٹھے جھولتے جاتے اور کہانی سُنتے جاتے۔ خدا قسم جیسا لطف اُن زمانوں میں کہانی سُننے کا تھا، آج تک نہیں ملا۔

اچھو کبھی کسی جنگل میں اپنے ساتھ شیر کے مقابلے کا قصہ سناتا، کبھی کسی ڈاکو کا افسانہ سناتا اور کبھی اژدہے کے ساتھ ہونے والے معرکے کی داستاں بیان کرتا۔ نقشہ ایسا کھینچتا کہ ہم وہ تمام معرکہ گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ ایک گھنٹے میں کھیت تک پہنچتے، جو کہانی سُننے میں لمحوں میں نکل جاتا۔ پھر جلدی سے چارا کاٹتے، گدھوں پر لادتے اور واپس ہو لیتے۔ واپسی ہماری گدھوں کے پیچھے پیچھے پیدل ہوتی تھی اوراچھو کی کہانی چلتی جاتی تھی۔

ایک دن اُس نے پدم ناگ کی کہانی شروع کی، جس میں ایک صحرا میں اچھو کا لگا تار تین دن ناگ سے مقابلہ چلا تھا۔ ناگ دس گز لمبا تھا اور چھجلی اُس کی ایک پنکھے کے برابر تھی۔ اچھو سنا رہا تھا کہ پدم ناگ کیسے گولی کی رفتار سے اُس کی طرف اُڑتا ہوا حملہ آور ہوتا اور کس طرح وہ ناگ کے وار بچا کر اُسے پلٹنیاں دیتا۔ ناگ کی شوک اتنی تیز تھی کہ صحرا میں ایک گونج اُٹھ جاتی تھی اور ہوا کے بگولے چکر کاٹنے لگتے تھے۔

ادھر اچھو بتا رہا تھا کہ اُس کی اپنی قلابازیوں نے ریت کے ٹیلے اُلٹ پلٹ دیے تھے۔ اِس لڑائی میں ریت اور گرد ایسی اُڑ رہی تھی کہ صحرا میں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ’سانپ کو مار تو مَیں پہلے دن ہی دیتا مگر مَیں نے اُسے زندہ پکڑنے کی ضد باندھ لی تھی۔‘

بھوک، پیاس اور گرمی کی شدت سے دونوں ہلکان ہو چکے تھے مگر اپنی جان کی خاطر ایسے ہشیار تھے کہ ذرا دوسرے کو راہ نہ دیتے تھے۔

اچھو کہہ رہا تھا: ’بھائی جان پر بنی ہو تو بندہ دیو سے بھی لڑ جاتا ہے اور یہی حالت میری تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ بس ایک دن کی بات اور ہے اب پدم ناگ کی طاقت آف ہونے ہی والی ہے۔ تم خود ہی بتاؤ، تین دن تک اول تو جاگنا، پھر ہُشیار بھی رہنا چھوٹی موٹی بات نہیں کہ ہر آدمی ایرا غیرا کر گزرے۔ بندہ ایک دن نہ سوئے تو باولا ہو جاتا ہے اور یہاں تین دن تک ایک پدم ناگ سے لڑنا سمجھو دیو ہی کا کام ہے اور مَیں یہ کر رہا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہانی اپنے کلائمکس کی طرف بڑھتی جا رہی تھی اور ہم دونوں بھائی اُس میں ایسے مگن تھے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ تصور کے کیمرے صدا کی لہروں سے بندھے ہوئے تھے اور ہم اُن کے دم سے اچھو اور ناگ کے میدان جنگ میں پہنچے ہوئے تھے۔ اچھو کہانی سنانے کے درمیان ہاتھوں اور جسم کی حرکات و سکنات سے ایسے ایکشن کرتا تھا کہ وہیں میدان سج جاتا تھا۔ ہمیں یہ اُمید تو تھی کہ اچھو نے پدم ناگ کو آخر مار دینا ہے لیکن کیسے مارنا ہے َ؟ یہی کچھ جاننے کی جستجو بڑھ رہی تھی۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی لمحے ایک ڈیڑھ فٹ کا کالا سیاہ سانپ گنے کی فصل سے نکلا اور ہمارے سامنے سڑک پر آ گیا، عین اچھو کے قریب۔ اب کیا ہوا کہ سانپ کو دیکھتے ہی اچھو کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، کہانی بھول گئی اور لب خشک ہو گئے۔ نہ آگے چلا جاتا ہے، نہ پیچھے ہٹا جاتا ہے، بولتی بند ہو گئی۔

ہم دونوں بھائی حیران کہ اچھو اِس رسی جیسے سانپ کو مارنے کے بجائے ساکت کیوں کھڑا ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر ہم نے انتظار کیا لیکن جب محسوس ہوا کہ اچھو کی روح تو یہیں کھڑے کھڑے خشک ہو جائے گی تو مَیں نے اور میرے بھائی نے جلدی سے کھیت سے روڑے اُٹھائے اور سانپ کی طرف پھینکے، سانپ ڈر کے بھاگا، اِدھر اچھو موقع پا کر دوسری طرف بھاگا مگر قسمت سے سانپ اور وہ ایک خشک اور ویران کھیت میں برابر دوڑنے لگے۔

اِسی اثنا میں اچھو کا پاؤں رپٹا اور دھم سے منہ کے بل جا گرا، پھر اُٹھا، پھر گرا۔ سانپ اُس کے پاؤں کے بیچ سے نکل گیا۔ اُس پر اُس نے ایسی چیخیں ماریں کہ پہلے ہمارے فرشتوں نے بھی نہ سُنی ہوں گی۔

اِدھر ہم سانپ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اُسے برابر ڈھیلے مارے چلے جاتے تھے، جن سے بالآخر وہ زخمی ہو کر لوٹنیاں لینے لگا۔ اچھو بھاگ کر 20 قدم دور جا کھڑا ہوا۔ مگر ہم دونوں بھائیوں نے سانپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اُسے ڈھیلے مار مار کر آخر مار دیا۔ جب تک ہم سانپ کے پیچھے بھاگتے رہے، اچھو اپنی جگہ سے بال برابر نہ ہلا۔ جب وہ مر گیا تب اُس کی جان میں جان آئی۔

اُس کے بعد ہم دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور اچھو نے وہیں سے اپنی داستان شروع کر دی جہاں سے چھوڑی تھی۔ ہم نے اُسے ہرگز نہیں پوچھا کہ جناب آپ تو پدم ناگ کا مقابلہ کر چکے ہیں، اِس ڈیڑھ فٹے سانپ سے کیوں ڈر گئے؟ کچھ تو اینٹ پتھر اُٹھا کر مارا ہوتا۔

 پتہ نہیں اُس وقت ہم داستانوں میں ہی رہنا چاہتے تھے یا تب معصومیت ہی ایسی تھی۔ آج بھی اِس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو دل میں بہت ہنستا ہوں اور اچھو پر بے پناہ پیار آتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی