اب کاروں کے پرزوں کی ترسیل ڈرون سے ہوگی

ہسپانوی کار ساز کمپنی ’سیٹ‘ کی جانب سے ڈورنز کے استعمال کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے پرزوں کی جلد ترسیل کو ممکن بنایا جاسکے اور یہ ماحول دوست بھی ہو۔

1.7 میٹر قُطر والا یہ ڈرون زمین سے 95 میٹر کی بلندی پر 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چار منٹ بعد اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے (تصویر: ایس ڈبلیو این ایس)

ٹریفک کے جنجال سے بچنے کے لیے سپین کی ایک کار بنانے والی ایک کمپنی نے پرزوں اور دیگر سازوسامان کی ترسیل کے لیے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

کمپنی کے مطابق اس نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا مقصد نہ صرف ٹریفک سے چھٹکارا پانا تھا بلکہ اس سے کاربن کے اخراج میں بھی کمی واقع ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہسپانوی کار ساز کمپنی ’سیٹ‘ کی جانب سے ڈورنز کے استعمال کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے پرزوں کی جلد ترسیل کو ممکن بنایا جاسکے اور یہ ماحول دوست بھی ہو۔

اس عمل میں پرزوں کو کاربن فائبر کیپسول پر لوڈ کرکے اسے الیکٹرومیگنٹ کے ذریعے ڈرون سے منسلک کر دیا جاتا ہے، جو اسے پیداواری یونٹ تک باآسانی پہنچا دیتے ہیں۔

کمپنی نے ڈرون کے ذریعے پرزوں کی ترسیل کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے سازوسامان کی ڈلیوری میں صرف ہونے والے وقت میں 80 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سٹیئرنگ وہیل کو ڈرون سے منسلک کیا جا رہا ہے جو اسے سپین کے شہر ابریرا میں قائم کمپنی کے لاجسٹک سینٹر لے جانے کے لیے پرواز کر رہا ہے۔

جس کے بعد یہ ڈرون لانچ پیڈ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اسمبلنگ ورکشاپ کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔

1.7 میٹر قُطر والا یہ ڈرون زمین سے 95 میٹر کی بلندی پر 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چار منٹ بعد اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔

اس سے قبل روایتی طریقے سے لاجسٹک سینٹر سے پیداواری یونٹ تک سٹیئرنگ وہیل کی ترسیل میں 15 منٹ کا وقت درکار ہوتا تھا۔     

’سیٹ‘ کمپنی کے نائب صدر برائے پیداوار اور لاجسٹکس ڈاکٹر کرسٹائن وولمر کا کہنا ہے کہ ’ڈرون کے ذریعے ترسیل کا عمل انقلابی قدم ثابت ہوگا۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ ڈرونز الیکٹرک بیٹریوں پر چلتے ہیں، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس عمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ایک ٹن سالانہ کمی ہو گی۔     

دوسری جانب سپنیش ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اس پروجیکٹ کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی