وزیرستان میں ٹی ٹی پی کا جھنڈا لہرانے کی خبریں غلط: سکیورٹی ذرائع

سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے جھنڈا نصب کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

شمالی وزیرستان میں 18 اکتوبر 2017 کو دو پاکستانی فوجی سرحد پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

سکیورٹی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان کے شہر میر علی میں تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے کوئی ’جھنڈا نصب نہیں کیا گیا اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں گردش کرنے والی خبریں غلط ہیں۔‘

اس بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں کچھ لوگ تحصیل میرعلی چوک میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا جھنڈا نصب کرنے سمیت علاقہ مکینوں کو میرعلی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ 

تاہم سکیورٹی ذرائع، مقامی پولیس اور انتظامیہ سبھی اس ویڈیو کو غلط اور پراپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔

ویڈیو میں خود کو ٹی ٹی پی ظاہر کرنے والے کچھ افراد رات کی تاریکی میں بندوق تھامے تحریک طالبان پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی شمالی وزیرستان کے عوام کے نام پیغام جاری کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تنظیم کا جھنڈا میرعلی چوک میں گاڑ کر علاقے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، ’لہٰذا عوام چین کی نیند سو سکتے ہیں۔‘

ویڈیو میں نظر آنے والے بندوق بردار شخص نے سکیورٹی اداروں کو بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی وزیرستان سے نکل جائیں ورنہ ایک خونریز جنگ کے لیے تیار رہیں۔

اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد صارفین کی جانب سے جنوبی و قبائلی اضلاع خصوصاً وزیرستان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہاں ٹی ٹی پی ایک مرتبہ پھر قدم جمانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

ویڈیو کے حوالے سے تفصیلات اور حقائق جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) شمالی وزیرستان فرحان خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم انہیں ابھی تک شمالی وزیرستان کے کسی بھی تھانے یا عام عوام کی جانب سے اس ویڈیو کے مصدقہ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

’گذشتہ روز سے فوج اور پولیس حکام میرعلی بازار اور دیگر علاقوں میں معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔ لیکن میری جو اسسمنٹ ہے، یہ ویڈیو میرعلی بازار کی نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو کسی اور مقام پر ریکارڈ ہوئی ہے، اور امکان ہے کہ یہ پرانی ہو۔‘

ڈی پی او شمالی وزیرستان نے کہا کہ ’میرعلی بازار میں تین سو سے زائد دکانیں ہیں، اور جہاں سٹریٹ لائٹس تمام رات جلتی ہیں، جہاں سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں کسی کالعدم تنظیم کی موجودگی اول تو ممکن نہیں اور اگر کوئی ویڈیو ریکارڈ ہو، تو باآسانی اس چوک یا بازار کے بارے میں فوراً معلوم ہو جاتا ہے۔‘

ڈی پی او فرحان خان نے کہا کہ طالبان کی موجودگی یا نقل و حرکت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ شمالی وزیرستان ایک بہت بڑا علاقہ ہے، جہاں کئی ویران اور سنسان مقامات اور رستے بھی ہیں۔

’ضرور ٹی ٹی پی کی نقل و حرکت ہو گی، لیکن کسی نیچرل راستے میں۔ شہری علاقے میں یوں کھلم کھلا ان کا گھومنا اور جھنڈے لگانے والی بات میں صداقت نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے تھانہ میرعلی کے پولیس حکام سے بھی بات کی، جنہوں نے کہا کہ نہ تو علاقہ مکینوں کی جانب سے کوئی اطلاع ملی ہے اور نہ انہیں تحقیقات کرنے پر کوئی ثبوت ملا ہے۔

اہلکار اختر اللہ اور شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی جا رہی ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے انڈپینڈنٹ اردو کے کسی بھی صحافی نے تصدیق کے لیے ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا۔

اگرچہ کوئی ویڈیو نئی یا پرانی ہونے کی تصدیق اپنی جگہ باقی ہے، لیکن ٹی ٹی پی کے قبائلی اور دیگر اضلاع میں موجودگی سے پولیس حکام انکار نہیں کرتے۔

رواں سال مئی کے مہینے میں پاکستان حکومت نے مذاکرات کی راہ اپناتے ہوئے افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے ایک وفد افغانستان بھیجا تھا، تاہم کالعدم ٹی ٹی پی نے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل اپنی چند شرائط حکومت پاکستان کے سامنے رکھیں، اور عارضی مدت کے لیے جنگ بندی پر متفق ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

30 نومبر 2022 کو کوئٹہ میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم پر حملے کے بعد اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے دوبارہ فائر بندی ختم کا اعلان کیا، جس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے میڈیا کو بتایا تھا کہ قبائلی اضلاع میں جاری صورت حال کی وجہ سے مذاکرات کا عمل متاثر ہوا ہے، تاہم انہوں نے دوبارہ تحریک طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی اور انہیں ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے 28 نومبر کو ایک اعلان جاری ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں پاکستان فوج کی جانب سے آپریشنز ہو رہے ہیں لہٰذا اب وہ بھی ملک بھر میں حملے کر سکتے ہیں۔

اس صورت حال کے بعد بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ مذاکرات کا عمل ناکام ہو گیا ہے، جو کہ حالیہ بنوں کے واقعے سے مزید واضح ہو جاتا ہے، جس میں ٹی ٹی پی اور پاکستان فوج دونوں جانب سے سختی دکھائی گئی، اور کسی نے ایک دوسرے کی کوئی شرط نہیں مانی۔

مذاکرات کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے متحدہ قبائل کمیٹی کے رکن اور قبائل عوامی پارٹی کے بانی اعظم محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان مذاکرات کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو وفد بھیجا گیا اس میں قبائلی اضلاع کے حقیقی نمائندگی کرنے والوں کو شامل نہیں کیا تھا۔ بلکہ جن لوگوں کو حکومت یا اداروں نے منتخب کیا تھا وہی لوگ گئے اور ناکام ہو کر لوٹ آئے۔

’ہمارے مسائل سے آشنا لوگ ہی طالبان کے ساتھ ان کی زبان میں بات کر سکتے ہیں۔ اگر وہی مشران جاتے جن کو قبائلی رسم و رواج اور روایات پر عبور حاصل ہے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ جرگہ کرنے والے کبھی بطور قاصد نہیں جاتے بلکہ بطور ثالث جاتے ہیں۔ ورنہ یہ جرگہ کا توہین تصور ہوتا ہے۔‘

اعظم خان نے موجودہ حالات کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس اور انتظامیہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ایسے واقعات کی تردید کرتی ہے، وگرنہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ایسی ویڈیوز کا سوشل میڈیا پر چلانا اور ان کی جنوبی و شمالی وزیرستان میں نقل و حرکت کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں کچھ ہی ماہ قبل لدھا، کانی گرم اور بدر کے علاقوں میں تحریک طالبان کے جھنڈے لگائے گئے تھے۔ ’یہ لوگ باقاعدہ رات کو روڈ پر ناکے لگاتے ہیں۔ مکین میں جب اسی طرح جھنڈے لگائے گئے تھے تو تب حکومت کے حامی سرینڈر شدہ طالبان جیگری گروپ نے طالبان کو چیلنج بھی کیا تھا کہ اگر عام لوگوں کو ان سے کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ داری ٹی ٹی پی عائد ہو گی۔‘

اعظم نے کہا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کامیاب کرانے ہیں تو قبائلی عوام کی باہمی مشاورت سے ایک بااختیار جرگی تشکیل دے کر روانہ کیا جائے جو وہاں طالبان کو قبائلی روایات کے مطابق قائل کریں گے۔ ‘اگر دو تین باتیں زبردستی منوانے کی کوشش بھی کریں گے تو طالبان اپنے سفید ریش قبائلی مشران کی پگڑیوں کا ضرور لحاظ کریں گے۔ لیکن ساتھ ہی حکومت کو بھی تھوڑی لچک دکھانی ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان