عالمی دہشت گرد قرار دیے گئے ٹی ٹی پی کے قاری امجد کون ہیں؟

امریکہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ (برصغیر) سے تعلق رکھنے والے چار عسکریت پسندوں کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

26 نومبر 2008 کی اس تصویر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر لطیف محسود کو دیکھا جا سکتا ہے، لطیف محسود ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی تھے(اے ایف پی)

امریکہ نے القاعدہ برصغیر کے تین جنگجوؤں سمیت عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نائب امیر قاری امجد کا نام بھی شامل کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے جن چار رہنماؤں کو ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13224 کے تحت عالمی دہشت گرد کے طور پر نامزد کیا، وہ یہ ہیں:

•    القاعدہ برصغیر کے امیر اسامہ محمود 
•    القاعدہ برصغیر کے نائب امیر عاطف یحییٰ غوری
•   القاعدہ برصغیر کی ریکروٹمنٹ برانچ کے ذمہ دار محمد معروف
•    کالعدم ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد، جو خیبر پختونخوا میں آپریشنز اور عسکریت پسندوں کے نگران ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قاری امجد کا نام امریکہ کی جانب سے مختلف پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد کی لسٹ میں بھی شامل تھا لیکن اب انہیں عالمی دہشت گرد اور امریکہ کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ امریکہ، افغانستان میں برصغیر پاک و ہند میں سرگرم القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں، نامزد افراد کی تمام جائیداد اور مفادات جو امریکی دائرہ اختیار میں ہیں، مسدود کردیئے گئے ہیں اور تمام امریکی افراد کو ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی لین دین میں ملوث ہونے سے منع کیا گیا ہے۔

امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن نے ٹویٹ کی کہ ’امریکہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی جانب سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کریں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’افغانستان میں قائم القاعدہ برصغیر اور ٹی ٹی پی کے چار رہنماؤں کو عالمی دہشت گرد نامزد کیا گیا ہے۔‘

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی ٹویٹ کی کہ ’القاعدہ برصغیر کے رہنماؤں اسامہ محمود، عاطف یحییٰ غوری اور محمد معروف اور ٹی ٹی پی رہنما قاری امجد کو دہشت گرد قرار دینا، ہمارے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گرد گروہوں کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔‘

امریکہ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ یہ اقدامات ایک بار پھر ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے اس عزم کو برقرار رکھنے کے لیے تمام متعلقہ ذرائع استعمال کرتے رہیں گے کہ بین الاقوامی دہشت گرد افغانستان میں کام کرنے کے قابل نہ ہوں۔

قاری امجد کون ہیں؟

قاری امجد کالعدم ٹی ٹی پی کے نائب امیر اور آج کل تنظیم کی نام نہاد وزارت دفاع کے وزیر ہیں۔

قاری امجد کا پورا نام قاری امجد علی ہے اور ٹی ٹی پی سرکل میں انہیں مفتی حضرت، مفتی مزاحم اور مفتی دیروجی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

قاری امجد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کی تحصیل ثمر باغ سے ہے اور ان کے خلاف تیمرگرہ، بلامبٹ، منڈا اور ثمر باغ  پولیس سٹیشن میں دہشت گردی کے مختلف مقدمات بھی درج ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ ٹی ٹی پی سوات کے سرگرم رکن رہے ہیں اور امریکہ کے ادارے فارن ایسیٹ کنٹرول دفتر کے مطابق وہ افغانستان کے صوبہ کنڑ کے علاقے ڈانگام میں رہائش پذیر ہیں۔

قاری امجد عرف مفتی مزاحم نے ہی 28 نومبر کو ٹی ٹی پی کی نام نہاد وزارت دفاع کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی تھی، جس میں حکومت کے ساتھ فائر بندی ختم کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی ’وزارت دفاع‘ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں ضلع بنوں اور لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ان حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’تمام تحصیل اور اضلاع کے لیڈرز کو حکم ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے، حملے کریں۔‘

اس کے بعد 30 نومبر کو کالعدم ٹی ٹی پی نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے بلیلی میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی کے لیے جانے والے بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک کے قریب خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 24 افراد زخمی ہوگئے۔

اس واقعے کے حوالے سے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کوئٹہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کو خطرناک اور باعث تشویش قرار دیا تھا۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ’میں پاکستان کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان