پاکستان میں بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال اور کمزور معیشت کا ذمہ دار جہاں ایک جانب پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور عالمی منڈی میں افراط زر میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب بعض حلقے افغانستان اور پاکستان کے مابین تجارت کی آڑ میں ڈالروں کی پڑوسی ملک مبینہ سمگل کو بھی وجہ بتاتے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے چیئرمین ملک بوستان نے رواں ہفتے ایک پریس کانفرنس میں ایسا ہی دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری و غیر سرکاری تجارت کی مد میں ہر مہینے پاکستان سے دو ارب سے زیادہ امریکی ڈالر افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔
ملک بوستان کا کہنا تھا: ’اس مقصد کے لیے پاکستان اور افغانستان کے تجارتی معاہدے کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس کا خمیازہ زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کی صورت میں بھگت رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ملک بوستان سے ان کے حالیہ دعوؤں سے متعلق دریافت کیا تو ان کے پاس اس کے دفاع کے لیے کوئی ثبوت تھا، نہ ہی وہ کوئی خاطر خواہ جواب دے سکے۔
تاہم انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی امپورٹرز اور افغان ایکسپورٹرز غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔
بقول ملک بوستان: ’2010 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدے کے مطابق، افغانستان کے لیے آنے والے کنٹینرز پر کسٹم ڈیوٹی نہیں ہے اور صرف انشورنس ادا کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان پہنچنے والی درآمدات پر دو سو فیصد سے زیادہ ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ مال افغانستان کے نام پر پاکستان آتا ہے اور سرحد پار کروا کو وہی مصنوعات غیرقانونی راستوں سے واپس پاکستانی مارکیٹوں میں لائی جاتی ہیں اور پاکستانی امپورٹرز، افغان ایکسپورٹرز کو غیر قانونی طور پر ڈالروں میں ادائیگی کرتے ہیں۔‘
ملک بوستان نے مزید بتایا کہ پاکستان کو ہر مہینے تین ارب ڈالر ترسیلات زر کی صورت میں موصول ہوتے تھے، جو اب ایک ارب ڈالر کمی کے بعد محض دو ارب رہ گئے ہیں۔
’ہماری برآمدات اور ترسیلات زر میں ایک ایک ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ پیسہ جو پہلے پاکستان آتا تھا، اب حوالہ سسٹم کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے، جو پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔‘
تاہم پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک حالیہ بیان میں ملک سے ڈالروں کی غیر قانونی سمگلنگ کو ’بے بنیاد او بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت پہلے امریکی ڈالروں میں ہوتی تھی، لیکن اب یہ تجارت پاکستانی روپے میں کی جا رہی ہے۔
’ڈالروں کی سمگلنگ کو روکنے کی غرض سے ہوائی راستوں سے بیرون ملک جانے والے مسافروں کے لیے بھی ایئرپورٹ پر ساتھ لے جانے والی رقم کو ظاہر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔‘
خیبر پختونخوا میں تاجروں اور صنعت کاروں کے نمائندہ ادارے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایس سی سی آئی) کے صدر محمد اسحاق نے بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہر روز 20 لاکھ کے قریب امریکی ڈالر پاکستان سے افغانستان جا رہے ہیں، ہم عرصہ دراز سے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں، لیکن کوئی ہماری سن ہی نہیں رہا۔‘
انہوں نے امریکی ڈالروں کی افغانستان غیر قانونی رسد کا الزام حکومتِ پاکستان پر لگاتے ہوئے کہا: ’حکومت اس معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں ورنہ ایک سینٹ بھی غیر قانونی طور پر منتقل نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا: ’بارڈر پر کوئی عام آدمی نہیں کھڑا۔ افغانستان آمدورفت کے دروازوں پر فکسڈ کوریڈورز ہیں۔ آپ بتائیں کہ سمگلنگ پھر کیسے ممکن ہے؟ اکا دکا چھوٹے کرنسی ڈیلر کو پکڑنے سے کچھ نہیں ہو گا، مسئلے کی جڑ کو پکڑنا ہو گا۔‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو ہفتے قبل اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف اور دیگر وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا تھا کہ پاکستان سے ڈالر، گندم اور کھاد پڑوسی ملک میں سمگل ہو رہے ہیں اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے بارڈر بھی سیل کرنا پڑا تو کیا جا سکتا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق جولائی 2021 سے جون 2022 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے درمیان قانونی تجارت کا حجم قریباً 80 ملین ڈالر رہا اور پڑوسی ملک میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کابل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر پاکستان ہی رہا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں افغانستان نے پاکستان کو لگ بھگ 80 کروڑ امریکی ڈالر کی برآمدات بھیجیں، جبکہ پاکستان سے افغانستان کو جانے والے سامان کی مالیت تقریباً 72 کروڑ ڈالر تھی۔
افغانستان پاکستان کو کوئلہ، ٹیکسٹائل، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خوردنی درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے جانے والی اشیا میں لکڑی، دوائیاں اور بعض اشیائے خوردنی شامل ہیں۔
افغانستان اپنی ضروریات صرف پاکستان سے پوری نہیں کرتا، بلکہ ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور روس بھی کابل کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں تجارت پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے اور اسلام آباد موجودہ معاشی مسائل پر افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر قابو پا سکتا ہے۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر عاطف حلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں امریکی ڈالروں کی پاکستان سے افغانستان غیر قانونی ترسیل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ زدہ ملک میں بینکنگ نظام درہم برہم ہے۔‘
ان کے خیال میں پاکستان میں ڈالروں کی قلت کی وجہ اوپن مارکیٹ ڈالر کے کاروبار پر پابندی ہے، جس کے باعث تاجر اور ڈیلرز غیر ملکی کرنسی کو چھپا کر رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم چیمبر کے ذریعے حکومت سے یہ درخواست کر چکے ہیں کہ سٹیٹ بینک کے زیر انتظام آسان شرائط پر ڈالر کا کاروبار کرنے والے صرافوں کو لائسنس کا اجرا کیا جائے، جس سے ڈالر کی ٹرانزیکشن میں شفافیت آئے گی۔‘
عاطف حلیم کے خیال میں پاکستان میں غیر یقینی کی فضا، سیاسی عدم استحکام اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر بینکوں میں ڈالر رکھنے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے چیئرمین پروفیسر ذلاکت خان ملک نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈالر کی اڑان کی وجوہات میں سیاسی عدم استحکام سمیت بیرون ملک سے غیر قانونی طریقوں سے رقوم کا بھیجا جانا شامل ہے۔
’لوگوں نے روپے کے بجائے امریکی ڈالر اپنے پاس رکھنا شروع کر دیے ہیں۔‘
اس سال مئی سے پاکستانی معیشت کو تاریخ کے بدترین بحران کا شکار سمجھا جا رہا ہے اور عام خیال ہے کہ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے۔
تاہم 28 دسمبر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج سے خطاب میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکان کو رد کرنے کے باوجود اعتراف کیا کہ ملک معاشی طور پر ایک مشکل مقام پر کھڑا ہے۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا: ’تاہم معاملات کو منظم کیا جا رہا ہے، جس کے سبب پاکستان جلد ہی مالی بحران سے نکل آئے گا۔‘