وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہوں کو ایک بار پھر سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں اور وہ یہ بات ثابت کرسکتے ہیں۔
بدھ کو سٹاک ایکسچینج کی ایک تقریب سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب میں وزیر خزانہ کہا: ’ہم روز سنتے ہیں کہ ملک ڈیٰفالٹ ہوجائے گا۔ کیسے ڈیفالٹ ہوگا؟ اس بات کا امکان ہی نہیں ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے۔‘
اسحاق ڈار نے مزید کہا: ’انشااللہ پاکستان اس بحران سے نکل آئے گا، ہم مینیج کر رہے ہیں۔ ہاں مشکل پوزیشن ضرور ہے۔ 24 ارب کا ریزرو نہیں ہے جو ہم 2016 میں دے کر گئے تھے لیکن یہ حکومت کا فالٹ نہیں ہے۔ یہ میرا فالٹ نہیں ہے۔ یہ نظام کا فالٹ ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کو آگے لے کر چلیں۔ پاکستان آگے جاسکتا ہے۔‘
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو اس نہج پر لانے والے ہیں۔ آپ ان کی بات مت سنیں۔ میں آپ کو ثابت کرسکتا ہوں کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا، لیکن ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم سیاست اور ذاتی مقاصد کے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بقول اسحاق ڈار: ’ہم اپنے بدترین دشمن خود ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم آج اس مقام پر کیوں آگئے ہیں کہ ہم ایک ایک ارب ڈالر کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ ایک ایک جگہ پر اپنے آپ کو تکلیف میں محسوس کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جائزہ لینا چاہیے اور ہمیں وہ چیزیں نہیں دہرانی چاہییں کہ جہاں آج ہم ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امید دلاتے ہوئے کہا: ’میں ہمیشہ سے سجھتا ہوں کہ پاکستان کا مستبقل بہت خوبصورت ہے اور اس کی معیشت میں ایک لچک ہپے۔ اس کے لیے ہم سب کو کام کرنا پڑا ہوگا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو وہاں لا کر کھڑا کردیا ہے، جس کا پاکستان مستحق نہیں ہے۔‘
وزیر خزانہ نے کہا: ’ہمیں پاکستان کو اس بھنور سے نکالنا ہے۔ پاکستان اس بھنور میں آچکا ہے، ہمیں سنجیدہ مسائل درپیش ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھنور سے نکل نہیں سکتے۔‘
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ’جب میں نے (بطور وزیر خزانہ) چارج سنبھالا تو یہ مسئلہ سامنے آرہا تھا کہ ہم نے پیرس کلب جانا ہے لیکن میں نے کہا کہ ہم نے پیرس کلب نہیں جانا ہے۔
’میں نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ ہمیں پیرس کلب نہیں جانا چاہیے، جس کا اعلان بھی ہوچکا تھا۔ کہا گیا کہ بانڈ کی میچورٹی کے لیے وقت مانگنا ہے لیکن میں نے کہا کہ نہیں ہم وقت پر ادائیگی کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’مجھے اکتوبر میں دورہ نیویارک کے دوران متعدد لوگوں نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے اور طویل مدت میں پاکستان کو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔‘