کیا قومی ادارے بیچنے سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ سکتا ہے؟

’اگر موجودہ نجکاری سے اڑھائی ارب ڈالرز مل بھی جائیں تو وہ کتنی دیر کارآمد ثابت ہوں گے؟ ابھی چین سے جو اڑھائی ارب ڈالرزملے تھے انہیں ایک ماہ سے کم عرصہ میں ہی خرچ کر لیا گیا ہے۔‘

ایک کرنسی ڈیلر 19 جولائی 2022 کو کراچی کی ایک کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر گن رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کی طرح معاشی عدم استحکام کا بھی شکار دکھائی دیتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب 30 کروڑ ڈالر تک گر گئے ہیں اور پاکستان کے بانڈز بین الاقوامی مارکیٹ میں آدھی قیمت پر بیچے جا رہے ہیں۔

روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی حوصلہ افزا بیانات سامنے نہیں آ رہے۔ ان حالات کے پیش نظر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت پاکستان کچھ اداروں اور منصوبوں کو دوست ممالک کو بیچنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

اس بارے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت دو پاور پلانٹس اور کچھ اداروں کے شیئرز عرب ممالک کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز معیشت میں شامل ہو سکیں گے اورروپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا مل سکے گا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکی منصوبے اور اثاثے بیچ کو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟

اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں کہ پاکستان آج نہیں تو کل دیوالیہ ہو جائے گا، شاید اسی لیے وہ مثبت اقدامات کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اداروں کو بیچنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر موجودہ نجکاری سے اڑھائی ارب ڈالرز مل بھی جائیں تو وہ کتنی دیر کارآمد ثابت ہوں گے؟ ابھی چین سے جو اڑھائی ارب ڈالرزملے تھے انہیں ایک ماہ سے کم عرصہ میں ہی خرچ کر لیا گیا ہے۔ نجکاری کرنے سے وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ چند دنوں سے زیادہ نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان سٹیٹ آئل کی بھی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، لیکن وہ جن شرائط پر کرنے جا رہی ہے وہ پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ ممکنہ طور پرعرب دوست ملک نے پی ایس او کے شیئرز اس شرط پر خریدنے کی ہامی بھری ہے کہ اگر کل کو شئیرز بیچنے کا فیصلہ کیا تو حکومت پاکستان اسے واپس خریدے گی اور اس کی قیمت دوست عرب ملک طے کرے گا۔ یہ ایک طرح کا قرض ہو گا۔

’اس سے پہلے بھی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں ملکی اثاثے گروی رکھ کر بھاری قرض لیتی رہی ہیں، جن میں موٹر وے، کراچی، اسلام آباد ایئرپورٹ، ریڈیو پاکستان کی عمارت اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک کے علاوہ کئی ملکی اثاثے شامل ہیں۔ حکومت آج تک ان اثاثوں کے عوض قرض کی ادائیگی کر کے انہیں آزاد نہیں کروا سکی۔ اگر اسی طرز پر مزید قرضے لینے کی پالیسی قائم رہتی ہے تو ممکنہ طور پر پاکستان کے اثاثوں کی خریداری میں بھی ممالک دلچسپی نہیں لیں گے، کیونکہ آج پاکستان کے بانڈز آدھی قیمت پر بھی کوئی لینے کو تیار نہیں ہے۔

’یہ خدشات بھی بڑھنے لگے ہیں کہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اگر ملکی ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتہ کرنے کی شرط رکھ دی جاتی ہے تو ہمارے حکمران کیا فیصلہ کریں گے؟ عوامی سطح پر بھی یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا پاکستان ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتہ کرنے کی طرف جا رہا ہے؟ اس وقت پالیسی بدلے جانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کی نجکاری کرنے کی بجائے انہیں کامیابی سے چلانے کی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ مفتاح اسماعیل چند دن پہلے دوبارہ فرما رہے تھے کہ جو سٹیل مل لے گا اسے پی آئی اے مفت میں دیں گے، کیونکہ ان کے نقصانات ان کے اثاثوں سے زیادہ ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’میرے مطابق مفتاح اسماعیل کا یہ بیان حقائق کے منافی ہے۔ پاکستان سٹیل مل کے پاس کم و بیش چار سے پانچ ہزار ایکڑ زمین موجود ہے۔ اس کی لوکیشن بھی پرائمری ہے۔ کراچی کو ایک نئے کمرشل حب کی ضرورت ہے، اگر اس زمین کی پلاٹنگ کر کے کمرشل حب بنا دیا جائے تو کھربوں روپے باآسانی کمائے جا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میرا ہی آئیڈیا تھا جو میں نے عمران خان صاحب کو پیش کیا تھا۔ آج ملک اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح سٹیل مل بھی منافع میں جا سکتی ہے اور اس کے لیے زیادہ محنت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کے لیے نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اسی طرح پاکستان ریلویز کے پاس اربوں ڈالرز کی زمین بیکار پڑی ہے، جس پر قبضہ مافیا پیسہ بنارہا ہے۔ پی آئی اے میں دس ملازمین کی جگہ 50 ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں۔ اگر نجی ایئر لائنز منافع میں جا سکتی ہیں تو پی آئی اے کیوں منافع نہیں کما سکتی؟ اس کے علاوہ کچھ ادارے ملکی سلامتی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، ان کی نجکاری کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگرجنگ کا ماحول بن جائے تو فوجی نقل و حرکت اور دیگر معاملات کے لیے ریلوے اور ایئر لائن پر حکومت کا کنٹرول ہونا ضروری ہے۔ پی ٹی سی ایل کی پہلے ہی نجکاری کر دی گئی ہے، اب دیگر اداروں کو نجکاری کی بجائے ان سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نجکاری کے حق میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’نجکاری کرنا بہتر فیصلہ ہے۔ جو ادارے حکومت کئی سالوں سے منافع میں نہیں چلا سکی وہ اب کیسے منافعے میں آ سکتے ہیں؟ انہیں بیچ دینا بہتر ہے۔ پوری دنیا میں ادارے حکومت کی جانب سے چلانے کی مثالیں بہت کم ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

ایل این جی پاور پراجیکٹس کی نجکاری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’سرکار جو پچھلے تین سالوں سے ایل این جی نجکاری کرنا چاہتی ہے لیکن کوئی لینے کو تیار نہیں ہے، کیونکہ یہ اتنا سیدھا معاملہ نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید ابھی بھی یہ ڈیل نہ ہو سکے۔ ممکنہ طور پر شاید ڈالر مارکیٹ کو وقتی طور پر قابو میں کرنے کے لیے ایک امید دلوا رہے ہیں۔ اگر یہ ڈیل ہو بھی گئی تو پاکستان کو کوئی خاطر خواہ دیرپا فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا، لیکن اس سے نقصان میں چلنے والے دیگر اداروں کی نجکاری میں مدد مل سکتی ہے۔ جب تک آئی ایم ایف سے قسط نہیں مل جاتی تب تک ڈالرز حاصل کرنے کے لیے نجکاری کرنا بہتر فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کبھی بھی دیوالیہ پن کے اتنا قریب نہیں آیا تھا، جہاں آج موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘

 سابق وزیر خزانہ شبیر زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملکی اثاثے بیچنے سے پاکستان دیوالیہ پن سے نہیں بچ سکتا۔ میں نے کئی ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن پورا ملک میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ آج سب میری بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ملکی اثاثے بیچنے سے دیوالیہ پن کا خطرہ نہیں ٹلے گا لیکن سیاسی استحکام آنے سے مزید وقت ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت آ گئی تو اسے ڈالرز بھی مل جائیں گے اور سرمایہ کار پیسہ بھی ملک میں لے آئے گا۔‘

ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ادارے اور منصوبے بیچنے کی بجائے ملک میں سیاسی استحکام لانا زیادہ ضروری ہے۔ چند ارب ڈالرز چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد کیا کریں گے؟ اگر برآمدات بڑھتی رہیں، ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوتا رہے اور درآمدات پر قابو پا لیا جائے تو ملکی اثاثے بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ