’اب اسلام آباد ایکسپریس وے گروی رکھا جائے گا‘

اٹھائیس کلومیٹر طویل اسلام آباد ایکسپریسں وے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان رابطہ سڑک ہے۔ یہ زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر روات ٹی چوک تک طویل ہے جہاں سے یہ جی ٹی روڈ سے منسلک ہو جاتی ہے۔

(اے ایف پی)

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایف نائن پارک کی بجائے اسلام آباد کلب کے عوض سکوک بانڈز اجرا کرنےکی تجویز دی گئی تھی لیکن اب وزارت خزانہ اسلام آباد کلب کے بجائے اسلام آباد ایکسپریس وے کےعوض سکوک بانڈز کے اجرا کی سمری وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔

وزارت خزانہ کے اعلی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کےاجلاس میں جب ایف نائن پارک کی تجویز مسترد ہوئی تو اسلام آباد کلب کو گروی رکھنے کی تجویز سامنے آئی، لیکن بعد ازاں وزارت خزانہ سکوک بانڈ کے لیے جو نئی سمری پیش کرے گی اس میں اسلام آباد ایکسپریس وے گروی رکھنے کی سفارش کی جائے گی۔

واضح رہے کہ ایف نائن پارک کی تجویز پر سوشل میڈیا تنقید کے باعث وفاقی کابینہ نے ایف نائن پارک کے عوض سکوک بانڈز کے اجرا کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔ کابینہ اجلاس میں یہ موقف لیا گیا تھا کہ سرکاری عوامی املاک کے عوض بانڈز کا اجرا نہیں ہو گا۔ وزارت خزانہ اپنے اعلامیے میں کہہ چکی ہے کہ ایف نائن پارک کے علاوہ علامہ اقبال انٹرنیشل ائیر پورٹ اور اسلام آباد ایکسپریس وے بھی امکانی املاک ہیں جن کی ضمانت پر قرض لیے جا سکتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جس بھی اراضی کے عوض سکوک بانڈ جاری کیے جائیں گے وہ علامتی طور پہ ہی ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اراضی یا وہ مقام استعمال نہیں ہو سکے گا۔ زمین کا اصل مالک اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے کوئی بھی تبدیلی کر سکتا ہے۔

اسلام آباد ایکسپریس وے

اٹھائیس کلومیٹر طویل اسلام آباد ایکسپریسں وے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان رابطہ سڑک ہے۔ یہ زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر روات ٹی چوک تک طویل ہے جہاں سے یہ جی ٹی روڈ سے منسلک ہو جاتی ہے۔ 2007 میں اسلام آباد ایکسپریں وے پر مزید انٹرچینجز بنانے کا کام شروع کیا گیا جو 2014 تک جاری رہا۔

اسلام آباد کلب اہم شخصیات کی سماجی سرگرمیوں کا مرکز:

جب کہ سکوک بانڈز کے اجرا کے لیے کابینہ کی جانب سے تجویز کردہ 352 ایکڑ پر مشتمل اسلام آباد کلب کے لیے مختص رقبہ اسلام کیپٹل ڈویلمپنٹ کی جانب سے 1967 میں لیز پر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد کلب حکومتی، سرکاری، عسکری اور سفارتی شخصیات کا مرکز ہے یہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔  

اسلام آباد کلب کمپنی ایکٹ کے تحت رجسٹر کرایا گیا تھا۔ بعد ازاں 1978 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے باضابطہ  کلب کا درجہ دے دیا۔ کلب آرڈیننس کے مطابق کلب کے سرپرست صدر پاکستان ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلب کے تیس سال پرانے ممبر انور محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کلب بنیادی طور پر سرکاری افسران کے لیے ہی بنایا گیا تھا اور اسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف کیٹیگریاں ہوتی ہیں جو سرکاری افسران ہیں وہ کیٹیگری ون میں ہیں جب کہ سفارت کاروں کی کیٹیگری مختلف ہے اورپرائیویٹ ممبر کو زیادہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔

کلب انتظامیہ کے مطابق وہ حکومت سے کسی قسم کے فنڈ نہیں لیتے اور نہ ہی عوامی ٹیکس کے پیسے کلب پرخرچ ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق فیس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم سے انتظامات چلائے جاتےہیں۔

واضح رہے کہ سکوک بانڈز وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک جاری کرتے ہیں اسلامی بینک حکومت سے سکوک بانڈ خرید کر اس کے عوض حکومت کو رقم فراہم کر دیتی ہے۔ سکوک بانڈ بینکوں کو بیچنے کے لیےصرف حکومت کی زبانی ضمانت نہیں چلتی بلکہ کاغذی طور پر کوئی پراپرٹی جس کی مالیت اتنی ہی ہو اس کانام دیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان