بغیر دستاویزات پاکستان میں مقیم افغان حکومتی ڈیڈلائن پر پریشان

پاکستانی وزارت داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لیے دی جانے والی ایمنسٹی سکیم 31 دسمبر کو ختم ہو جائے گی اور یکم جنوری سے ’اوور سٹے‘ کرنے والے غیر ملکی باشندوں سے جرمانہ وصول کیا جائے۔

 31 اگست 2021 کی اس تصویر میں افغان پناہ گزین پاکستان کی سرحد کے ساتھ چمن کے علاقے میں ایک عارضی پناہ گاہ کیمپ میں خیموں میں موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے لیے دی جانے والی ایمنسٹی سکیم 31 دسمبر کو ختم ہو جائے گی اور یکم جنوری سے ملک میں ویزے کی مدت سے زائد رکنے والے غیرملکی باشندوں سے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔

پاکستان افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ گذشتہ سال افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد بہت سے افغان سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے تھے، جن کے پاس اب یہاں مزید رہنے کے لیے ضروری سفر دستاویزات نہیں ہیں۔

پاکستانی حکومت نے رواں سال جولائی میں ملک میں میعاد سے زائد عرصے تک رہنے والے افغان اور دیگر ممالک کے  شہریوں کے لیے ایمنیسٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق قانونی کاغذات نہ رکھنے والے غیرملکی شہری 31 دسمبر تک خود ہی پاکستان چھوڑ جائیں، بصورت دیگر قانونی کاغذات کے بغیر رہنے والے شہریوں کو ملک بدر اور آئندہ پاکستان میں داخل ہونے پر بلیک لسٹ کردیا جائے گا یا انہیں جرمانے  کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ 

 

اس سلسلے میں رواں ہفتے جمعرات کو وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لیے دی جانے والی ایمنسٹی سکیم 31 دسمبر کو ختم ہو جائے گی اور اس ضمن میں وزارت داخلہ نے نادرا کو مراسلہ بھی ارسال کر دیا ہے۔

مراسلے کے مطابق یکم جنوری سے پاکستان میں ’اوور سٹے‘ کرنے والے غیر ملکی باشندوں سے جرمانہ وصول کیا جائے۔

جب کہ مراسلے میں کہا گیا کہ ’نادرا ایگزٹ پرمٹ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں پر ایک سال سے زیادہ اوور سٹے کرنے والوں سے جرمانے کی رقم وصول کرے گا۔‘ اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ’ایمنسٹی سکیم ختم ہونے پر ایک سال سے زیادہ رکنے والوں کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق 13 لاکھ افغان شہریوں کا پاکستان میں اندارج ہے اور انہیں پروف آف رجسٹریشن یعنی ’پی او آر‘ کارڈز جاری کیے گئے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں افغان شہری ایسے ہیں جن کے کوائف کا اندارج نہیں ہے لیکن نہ تو یو این ایچ سی آر اور نہ ہی حکومت نے سرکاری طور پر ایسے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن سے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان یا دوسرے ممالک کے شہریوں کی تعداد معلوم ہو سکے۔ اندازوں کے مطابق یہ تعداد بھی پانچ سے دس لاکھ ہوسکتی ہے۔

حکومت پاکستان کی رعایت کے خاتمے کے بعد کی صورت حال میں افغان شہری خاصے پریشان ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو نے کراچی کی سپر ہائی وے  پر واقع افغان بستی کا دورہ کیا۔ وہاں کے رہائشی دوست محمد نے انہیں بتایا کہ حکومت کے حالیہ اعلان کے بعد پی او آر کارڈ نہ رکھنے والے افغان شہری پریشان ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دوست محمد نے کہا کہ اب حکومت افغان پناہ گزینوں کو مزید پروف آف رجسٹریشن کارڈ ’پی او آر‘ جاری نہیں کر رہی جس پر ان کے بقول افغان پریشان ہیں۔ ’پاکستان حکومت نے مزید پی او آر کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا اب کیا ہوگا۔‘

دوست محمد کا خاندان افغانستان میں زراعت کے لیے مشہور قندوز شہر کا رہائشی تھا۔ وہ کئی سال پہلے پاکستان آئے۔ دوست محمد کے مطابق جب وہ پاکستان آئے تو بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے قریب واقع پنجپائی میں قائم افغان کیمپ میں دو، تین سال گزارے اور بعد میں جب انہوں نے سنا کہ کراچی میں سپر ہائی وے پر افغان کیمپ بن رہا ہے تو وہ لوگ کراچی آگئے۔

دوست محمد کے مطابق: ’جب ہم یہاں آئے تو حکومت پاکستان نے خیمہ دیا تھا۔ ہم لوگ خیمے میں رہتے تھے۔ جب وہ پرانا ہوگیا تو ہم نے یہاں کچے مکان بنائے۔ جب بارش ہوتی تھی تو کچے مکان گر جاتے تھے۔ پھر ہم نے سیمنٹ کے بلاک سے مکان بنا لیے ہیں۔‘

اس وقت کراچی کی افغان بستی میں بڑی تعداد میں افغان شہری مقیم ہیں۔

’حکومت پاکستان تھوڑا وقت دے‘

صوبہ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، پشاور میں افغان کمشنریٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار انیلا خالد کو بتایا کہ یہ صوبہ پاکستان میں سب سے زیادہ یعنی 57 عشاریہ چھ فیصد پناہ گزینوں کی میزبانی کررہا ہے۔

افغان کمشنریٹ کے افسر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں غیر قانونی طور پر پناہ لینے والے یعنی دستاویز کے بغیر افغان پناہ گزینوں کی تعداد اندازاً سات لاکھ ہے لیکن ان کے بقول حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

بغیر ضروری قانونی دستاویزات کے پاکستان میں رہنے والے افغان ملک چھوڑنے کے حوالے سے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن پر اضطراب کا شکار ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پشاور میں افغان پناہ گزینوں نے کہا کہ ایک جانب افغانستان میں جہاں ان کے لیے روزگار نہیں ہے، وہیں وہ طالبان کے خوف سے بھی افغانستان نہیں جاسکتے۔

کابل سے تعلق رکھنے والے پشاور میں رہائش پذیر حضرت محمد نامی ایک افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستانی حکام کو غیرقانونی طور پر پناہ لینے والے افغان پناہ گزینوں کو تھوڑا وقت دینا چاہیے۔ افغانستان میں کوئی روزگار نہیں ہے۔ لوگ طالبان سے تنگ ہیں۔ میں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں، لیکن نہ میرے پاس شناختی کارڈ ہے نہ دستاویز۔ اسی لیے کہیں بھی آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتا۔ بازار نہیں جاسکتا۔‘

حضرت محمد نے کہا کہ یہی حال ان کے گھر کے دوسرے افراد کا بھی ہے اور ان کے کچھ رشتے دار بھی ایسے ہیں جو اسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں اور نتیجتاً گھروں تک محدود ہیں۔

صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے گلستان نے کہا کہ وہ ایک مریض کو لے کر پشاور کے ہسپتال آئے ہیں، کیونکہ افغانستان میں ڈاکٹر ہیں اور نہ کوئی سہولیات۔ مجبوراً پاکستان کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ’خیبر پختونخوا حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں کارڈ دیں اور اس طریقہ کار کو آسان بنائے۔‘

افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی سعید مسکین یار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک جانب پاکستان میں حکومتیں بغیر دستاویز کے مقیم افغانوں کو واپس بھجوانا چاہتی ہیں تو دوسری طرف انہوں نے ویزہ لگوانے، رجسٹریشن اور کارڈز فراہم کرنے کی معیاد کو انتہائی سست رفتاری کا شکار بنا دیا ہے۔

’میں نے خود چھ ماہ قبل رجسٹریشن کے لیے تمام معلومات مہیا کردی تھیں، لیکن ابھی تک انٹرویو کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ جہاں پاکستان میں لاکھوں افغان مقیم ہیں اور کام کی رفتار اس قدر سست روی کا شکار ہے، ایسے میں کہاں ممکن ہے کہ افغان پناہ گزین دستاویزی ضروریات بروقت پوری کر کے پاکستان میں قیام کرسکیں۔‘

گذشتہ ہفتے حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ملک کے مختلف علاقوں میں 11 ایسے مراکز کھولنے کا اعلان کیا جہاں ’پی او آر‘ کارڈز کا اجرا اور ان میں موڈیفیکشن ہو سکے گی۔

یہ مراکز پشاور، کوئٹہ، کراچی، لاہور، اسلام آباد، نوشہرہ، میانوالی، لوئر دیر، ہری پور اور کوہاٹ میں کھولے گئے ہیں جہاں ان افغان پناہ گزینوں کی مدد و رہنمائی کی جائے گی، جن کے  ’پی او آر‘ کارڈز جون 2023 میں ختم ہو رہے ہیں۔ 

بلوچستان میں پناہ گزین حکومتی فیصلے سے ’خوف زدہ‘ 

بلوچستان میں گذشتہ 40 سالوں سے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جن میں سے اکثر کے پاس قانونی دستاویزات بھی نہیں ہیں جبکہ یہ لوگ صوبے کے مختلف علاقوں میں کچی آبادیوں میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 

حکومت پاکستان کے اس فیصلے پر کہ 31 دسمبر کے قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے اور ان کی مدت ختم ہونے والے افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کردیا جائے گا، انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے۔

اس خط میں یہاں پر مقیم افغان مہاجرین کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

ان پناہ گزینوں میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد مزید اضافہ ہوگیا۔ انہی میں کوئٹہ کی ایک کچی آباد میں مقیم صبغت اللہ بھی ہیں، جو افغانستان کے علاقے قندوز سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے سال 2021 میں اس وقت ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب وہاں پر افغان حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آگئی تھی۔ 

صبغت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وہاں سے نکلنے کے بعد مشکلات نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا اور ہم جب قندھار سے سرحد کے قریب پہنچے تو وہاں سرحد پار کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس طرح کے لوگوں کی تلاش میں ہمیں تین دن کھلے آسمان تلے دن رات گزارنے پڑے۔‘ 

صبغت اللہ کہتے ہیں کہ جب وہ سرحد کے پاس میدان میں تھے تو دن کو شدید گرمی ہوتی تھی اور رات کو مچھروں کی بہتات ہوتی تھی۔

’پھر بڑی مشکل سے ایک بندہ ملا جس نے ہم سے 30 ہزار روپے کا مطالبہ کیا جس کے عوض وہ ہمیں سرحد پار کروائے گا۔‘ 

صبغت اللہ کہتے ہیں کہ بالآخر اس نے 21 ہزار روپے کے عوض سرحد پار کروانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اس طرح وہ سرحد پار کر کے چمن آئے اور وہاں سے چھپتے چھپاتے کوئٹہ پہنچے۔ 

انہوں نے کہا: ’چونکہ ہمارے پاس کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت پاکستان نے ہمیں 31 دسمبرسے نکالنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے، لیکن یہ ہمارے لیے بہت تشویش کا باعث ہے۔‘

صبغت اللہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ روزگار اور رہائش سمیت دیگر پریشانیوں کا شکار ہیں۔ بڑی مشکل سے ان کے بچے کچرہ وغیرہ جمع کرکے فروخت کرکے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا: ’میرے 12 بچے ہیں۔ جن میں سے پانچ کاغذ اوردیگر کارآمد اشیا جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ایک بچہ سکول میں پڑھتا ہے۔ باقی سب ان پڑھ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صبغت اللہ کہتے ہیں کہ افغانستان واپس جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن وہاں پر روزگار کی کمی ہے جس کی وجہ سے انہیں وہاں جا کر مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہاں پر کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں۔ 

افغانستان کے علاقے قندوز سے تعلق رکھنے والے رحمٰن گل بھی افغان طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت، بےروزگاری اور جان کے خطرے کے باعث 2021 میں بلوچستان آئے تھے۔ 

رحمٰن گل نے بتایا: ’ہم نے جب افغانستان سے ہجرت کی تو ہمارے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھیں، جس کے باعث یہاں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا بلکہ ابھی تک سفر رہائش اور کاروبار میں یہ چیزیں رکاوٹ ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ جب ہم سرحد پر پہنچے تو اس وقت وہاں حالات درست نہیں تھے۔ ہمیں 17 سے 18 دن تک سرحد پر انتظار کرنا پڑا پھر وہاں پر مقامی ایجنٹ کو پیسے دے کر ہم نے سرحد پار کی۔ 

صبغت اللہ اور رحمان گل کی طرح بلوچستان میں قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے افغان پناہ گزین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جن میں بہت سے لوگ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ انہیں پاکستانی حکومت کے اس فیصلے نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ 

دوسری جانب یو این ایچ سی آر سے اس بارے میں رابطہ کرکے موقف لینے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان