جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں سخت سردی اور خراب موسم کے باوجود دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خلاف دھرنا چھٹے روز میں داخل ہو گیا ہے اور مظاہرین نے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد فوجی چھاؤنی کو جانے والے داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے ہیں۔
دھرنے کے منتظمین کے مطابق احتجاج کو توسیع دینے کی غرض سے بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان اور افغانستان کو جانے والی شاہراہوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دھرنا منتظمین کا کہنا تھا کہ سول انتظامیہ کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اور چند ماہ سے لاپتہ چھ افراد کو رہا کر دیا گیا ہے، جبکہ جمشید وزیر نامی تاجر کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ایاز وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان نے دھرنا منتظمین کی انسپکٹر جنرل آف فرنٹیئر کور (آئی جی ایف سی) سے ملاقات کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے، تاہم شرکا نے آئی جی ایف سی کے ساتھ چھاؤنی سے باہر ملنے کی شرط رکھی ہے۔
‘ایاز وزیر نے بتایا: ’ہم نے آئی جی ایف سے ملاقات کی کئی بار تحریری درخواست کی، لیکن شنوائی نہیں ہوئی، اور اس لیے اب ہم ملاقات کی صورت میں کسی تیسرے فریق کے دفتر میں ملنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دھرنے کے دوران گرفتار ہونے والے افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اے این پی کے رہنما نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کے صرف چند ایک مطالبات منظور کیے گئے ہیں، جبکہ زیادہ اہم مسائل پر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔
جمشید وزیر
ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ خشک میووں کا کاروبار کرنے والے جمشید وزیر کو چند ماہ قبل نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔ ’26 سالہ جوان انتہائی معصوم اور غیر سیاسی ہے، جس کا باپ معذور اور بیمار ہے۔ جمشید کو والد کا کاروبار سنبھالا کے فوراً بعد بھتے کی کالز آنا شروع ہو گئیں، اور پھر وہ لاپتہ ہوئے۔‘
دھرنے میں شامل رحمان وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مظاہرین نے عمائدین یا علما کے جرگوں کو بھی قبول کرنے سے انکارکر دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وانا میں جاری دھرنا چھ جنوری کو دہشت گردی، شدت پسندی اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال کے خلاف شروع کیا گیا تھا، جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، جبکہ 11 جنوری (بدھ) کو مظاہرین نے سخت سردی میں وانا کے رستم بازار میں دھرنا دیا۔
اولسی پاسون کے زیر انتظام جاری احتجاج میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جماعت اسلامی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کے علاوہ سماجی کارکنان، تاجران، علما، علاقائی عمائدین اور شہری شریک ہیں، جنہوں نے امن کے سفید جھنڈے اور مختلف بینرز اٹھا رکھے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا کا موقف جاننے کے لیے آئی جی ایف سی کے دفتر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم اس خبر کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
شرکا کے مطالبات
- امن سول حکومت کی ذمہ داری ہے اور مطلوب اشخاص یا سرچ آپریشن پولیس قانون کے مطابق کریں، اور اگر ان کو ایف سی یا فوج کی ضرورت ہو تو 2002 پولیس آرڈر 126 کے تحت مدد لے سکتے ہیں۔
- سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور 1973 کا آئین ان علاقوں پر لاگو ہوتا ہے، لہذا ان علاقوں میں امن کمیٹی ، قومی لشکر، یا 2007 معاہدہ علاقے کے عوام کو قبول نہیں۔
- حکومتی رٹ کی بحالی کے لیے لوئر وزیرستان کو الگ ڈی پی او، ڈی سی، ججز بشمول تمام لائن ڈیپارٹمنٹس وانا منتقل کیے جائیں۔
- جمشید وزیر کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔
- سپین وام، اعظم ورسک، شکئی، انگور اڈہ، زارملن اور رغزئی تھانوں پر کام پورا کیا جائے، اور علاقے کے بازاروں میں پولیس چوکیاں قائم کی جائیں۔ پولیس کو قانونی اختیارات دی جائیں۔ لیویز کی نوکریوں کو بحال کیا جائے۔اور موجودہ پولیس نفری کی حاضری یقینی بنائی جائے۔
- پولیس تھانوں ، چوکیوں، اور دوران گشت پولیس کے تحفظ کے لیے پر ایف سی کو تعینات کیا جائے۔
- گاڑیوں کے کالے شیشوں پر بلا امتیاز (سرکاری و غیرسرکاری) پابندی عائد کی جائے، اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
- منشیات کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔
- مسلح تنظیموں اور شر پسند عناصر پر پابندی عائد کی جائے۔
- انگور اڈہ بارڈر پر تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں، اور پاکستانی شناختی کارڈ ہولڈرز کو انگور اڈے پر آنے جانے کی اجازت دی جائے۔