ملک میں دو انتخابات سے 20 ارب روپے کا اضافی خرچ ہوگا: ماہرین

سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ آنے والے چند ماہ میں انتخابی عمل ہوں، اس کے لیے پاکستان کو اربوں روپے درکار ہوں گے۔

16 اکتوبر 2022 کو کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخاب کے دوران ایک خاتون اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات سے کیا سیاسی اور معاشی استحکام حاصل ہو سکے گا؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں اور ملک اس وقت دو عام انتخابات کروانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عام انتخابات پہلے ہوتے ہیں تو اس صورت حال کا نقصان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو ہو سکتا ہے کیونکہ اگر پاکستان تحریک انصاف اکثریت لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور حکومت بنا لیتی ہے تو پی ڈی ایم کی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام کے لیے وفاقی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے صورت حال کچھ اچھی نہیں ہو گی۔

دو عام انتخابات کا معیشت پر کیا اثر ہوگا؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے اس سوال کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اگر ہم عام انتخابات کو دو قسطوں میں کریں گے تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔‘

بقول احمد بلال محبوب: ’اس وقت سوال ہی یہی ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں کیا ہم جمہوریت کی استطاعت رکھتے ہیں؟ انتخابات جمہوریت کا ایک حصہ ہیں۔ آپ کوحکومت کا ایک انفراسٹرکچر برقرار رکھنا ہوتا ہے جس میں پارلیمنٹ، اسمبلی، یونین کونسل وغیرہ شامل ہیں اور ہر جگہ پر آپ اخراجات کرتے ہیں۔ اراکین کو بھی تنخواہیں دی جاتی ہیں اور یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا متبادل ہمارے جیسے ملک میں نہیں ہے۔ ’اگر بادشاہت کا نظام ہوتا تو ہم اس سے کام چلا لیتے۔ نہ ہمارے ہاں کوئی ایسا ہے جس پر ہم سب متفق ہو سکیں۔ فوج کا حال ہم سب نے دیکھ لیا۔

’میرے خیال میں یہ ہمارے سیاست دانوں کی غیر ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اپنی انا کی تسکین اور اپنی سیاسی جماعت کے ذاتی مفاد کے لیے اس طرح کا کام کر رہے ہیں، جس کا خمیازہ ہمیں اس معاشی بدحالی میں اضافی پیسہ خرچ کر کے اٹھانا پڑے گا۔‘

سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار حسین نقی بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے نتیجے میں جلد انتخابات کے حق میں نظر نہیں آتے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ہوتے ہیں تو یہ ملک کی معیشت پر مزید دباؤ ڈالیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ آنے والے چند ماہ میں انتخابی عمل ہوں، اس کے لیے پاکستان کو اربوں روپے درکار ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتیں جو دن رات جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی ہیں، کو سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات پر توجہ دینی چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کی معیشت کا تعلق ہے تو پاکستان کو اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرنا ہوگی اور پینشنز کے نظام کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا، ورنہ پاکستان کی معیشت امداد اور قرضوں پر ہی انحصار کرتی رہے گی۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم کا مشورہ ہے کہ عام انتخابات ایک ہی ہونے چاہییں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا: ’دیکھا جائے تو ابھی بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے اور پھر باقی اسمبلیوں کے تو یہ تین طرح کی مشق ہو گی، جو کہ موجودہ معاشی صورت حال میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’وفاقی حکومت کو چاہیے کہ باقی اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں تاکہ انتخابات اکٹھے ہوں۔‘

بقول ڈاکٹر قیس اسلم: ’اگر انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے تو حکومت نے بجٹ کے بعد انتخابات کے لیے پیسہ رکھ لینا تھا لیکن ابھی شاید حکومت کے پاس انتخابات کے لیے پیسہ نہیں ہے اور کہیں نہ کہیں ترقیاتی بجٹ سے نکال کر انتخابات پر خرچ کیا جائے گا۔ اس کا نقصان ترقیاتی کام رکنے کی صورت میں ہوگا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے روایت تھی کہ انتخابات سے قبل صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے ایم پی ایز یا ایم این ایز کو پیسے دیتی تھیں کہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کریں لیکن اب وہ بھی نہیں ہوں گے۔‘

ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق: ’جہاں تک پاکستانی معیشت کا تعلق ہے تو پاکستان اس وقت صرف مانگ کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش میں ہے۔ سرمایہ دار ڈالر خرید کر اس ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ غربت عروج پر ہے، بے روزگاری سات فیصد پر ہے، ہمارا گروتھ ریٹ چھ فیصد سے تین فیصد پر پہنچ گیا ہے، مہنگائی 29 فیصد پر چلی گئی ہے، شرح سود 16 فیصد ہے۔ کوئی بھی معیشت اس طرح سے کام نہیں کرتی۔ صرف ٹیکس لگا کر حکومت چلانی اور عیش کرنے سے معیشت نہیں چلے گی۔ آپ کو معیشت کو چلانے کے لیے ٹیکس کٹس لگانے ہوں گے۔ سرمایہ داروں کو سکیورٹی دینی ہوگی، فارن انویسٹ کمپٹیشن کروانا پڑے گا۔‘

اس تمام صورت حال کے حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر فہد علی کہتے ہیں کہ ’جس قسم کی معاشی پالیسی پر وفاقی وزیر برائے معیشت اسحاق ڈار چل رہے ہیں، جس میں انہوں نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر ایک مخصوص جگہ پر فکس رکھا ہوا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ہمارے معاشی مسائل اور مہنگائی تھوڑی قابو میں آجائے گی، تو اس پالیسی کی وجہ سے ہم ایک بہت سنجیدہ نوعیت کے بحران کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر ادائیگیوں کے توازن کا یہ بحران اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا افراط زر پر انتہائی برا اثر ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دو عام انتخابات کرنے سے پیدا ہونے والی  سیاسی غیر یقینی قابو میں نہیں آئے گی اورہم دیکھتے آئے ہیں کہ اس کا بھی ملکی معیشت پر ایک بہت منفی اثر ہوتا ہے۔‘

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ممکنہ انتخابات کے سیاسی چیلنجز؟

گذشتہ 25 برس سے پاکستان میں عام انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے عبیداللہ چوہدری کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کو دو بڑے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔

’پہلا چیلنج انتخابات کی شفافیت کا ہے کیونکہ ایک بڑی پارٹی کو الیکشن کمشن پراعتماد نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات کے جو بھی نتائج نکلیں گے اس پربہت زیادہ تنازع پیدا ہونے کا احتمال ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کیں، تاہم ان تبدیلیوں کے باوجود بھی 2018 کے  انتخابات میں خاص طور پر رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) اور ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) کے کردار کے اوپر سوالیہ نشان اٹھائے گئے۔

اس کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کا تھا، جسے تب سے 2022 تک حل نہیں کیا جا سکا۔ یہ تین ایسے مسائل تھے، جن پر اتفاق رائے کیے بغیر انتخابات میں جانا انتخابات کو متنازع بنانے کے مترادف ہے۔ اس سے سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کی توقع ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’دوسرا بڑا مسئلہ پرامن انتخابات کا انعقاد ہے۔ سیاسی پولرائزیشن کی موجودگی میں جب صرف دو صوبوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور وہاں ساری سیاسی جماعتوں کو اپنے طور پر پورا زور لگانے کا موقع ملے گا، اس سے انتخابات کے پر امن رہنے پر سوالات اٹھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں ہونے والے انتخابات خاص اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ تاریخ میں کہا جاتا رہا ہے کہ جس جماعت نے پنجاب میں سیاسی کامیابی حاصل کی، اسی نے بعد میں وفاق میں حکومت بنائی۔ اس لیے اس وقت پنجاب کے انتخابات سبھی سیاسی جماعتوں کے لیے اتنے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی سیاسی جماعت ان انتخابات میں اپنی شکست ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگی اور یہ بھی وہی نقطہ ہے، جس سے ان انتخابات کے پرامن رہنے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوتا ہے۔‘

دو صوبوں کے انتخابات جیتنے والی پارٹی، بعد میں ہونے والے الیکشن پر اثرانداز ہوگی؟

ڈاکٹر فہد علی کے مطابق: ’پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں جو بھی سیاسی جماعت ابھر کر آئے گی وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے یہ بہت مشکل بنا دے گی کہ وہ اپنے اپنے حلقوں سے ایم این اے کی نشستیں جیت سکیں۔ اس کے نتیجے میں انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے اور پھر ہو سکتا ہے کہ ملک میں ایک اور سیاسی بحران کھڑا ہو جائے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ باقی اسمبلیاں بھی تحلیل کر کے قومی سطح پر ایک ہی مرتبہ عام انتخابات کروائے جائیں۔‘

حسین نقی کے خیال میں: ’انتخابات ایک ہوں یا دو ان کی افادیت پاکستان میں اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ انتخاب کا عمل شفاف نہ ہو اور اس میں کسی بھی ادارے کی طرف سے مداخلت نہ ہو۔‘

پلڈاٹ کے صدراحمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’اگر پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنا لیتی ہے اور اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اس کا عوام میں ایک بہت پرزور پیغام جائے گا۔ عوام اس بات کو سمجھ لیں گے کہ اگلے قومی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی ہی جیت ہوگی۔‘

بقول احمد بلال محبوب: ’یہاں بہت سے ایسے ووٹرز ہوتے ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ وہ ووٹرز پی ٹی آئی کی طرف چلے جائیں گے اور جو الیکٹیبلز ہوتے ہیں ان کا بھی اپنی پارٹی سے تعلق کوئی بہت مضبوط نہیں ہوتا، وہ بھی پھر ایسی پارٹی کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں، جس کے جیتنے کا امکان ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں پی ٹی آئی کو بالکل فائدہ ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو میرے خیال میں اس کا نقصان پی ڈی ایم کو ہوگا، ان کے لیے یہ کرو یا مرو جیسی صورت حال ہو گی۔‘

دو عام انتخابات کے نقصانات؟

اس حوالے سے احمد بلال محبوب نے بتایا: ’ہمارے ہاں کیئر ٹیکر حکومت کا سسٹم ہے۔ جب صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ہوں گے تو قومی سطح پر کوئی کیئر ٹیکر حکومت نہیں ہوگی، جس کا مطلب ہے وفاق میں ایک سیاسی حکومت ہے جو سیاسی طور پر انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جب دس ماہ کے بعد قومی سطح پر عام انتخابات ہوں گے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں بھی اس وقت کیئر ٹیکر حکومتیں نہیں ہوں گی، اس لیے وہ بھی عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہوگی جو انتخابات کی شفافیت کو متاثر کر سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے بعد جو حکومت آئے گی وہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوگی کیونکہ یہ بھی عام انتخابات ہیں جبکہ دس ماہ بعد جب وفاق اور باقی صوبوں میں عام انتخابات ہوں گے، اس کے بعد آنے والی حکومت اگلے پانچ سال کے لیے منتخب ہو گی تو ہر اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ لڑکھڑاتے ہی رہیں گے۔‘

کیا ماضی میں دو قسطوں میں عام انتخابات کی کوئی مثال پاکستان میں موجود ہے؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے بتایا: ’ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا، البتہ ایسا ضرور ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات ایک دن ہوئے اور تین دن کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے، لیکن اس تجربے سے ہم نے سیکھا تھا کہ عام انتخابات ایک ہی دن ہو جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس سے معیشت پر بھی زیادہ بوجھ نہیں پڑتا اور انتظامات بھی بہتر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن ہمارے آئین میں چونکہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور تھیوریٹیکلی یہ ممکن ہے کہ ایک اسمبلی کے انتخابات آج ہو رہے ہیں، ایک کے کل ہو رہے ہیں اور اسی طرح باقی بھی۔ انڈیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہاں پہلے تو اکٹھے ہی ہو رہے تھے لیکن پھر انتخابات الگ الگ ہو گئے اور یہی اب ہمارے ہاں ہو گا۔‘

اس حوالے سے سینیئر سیاست دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آئین میں تو انتخابات ایک ہی دن کروانے کا کہا گیا ہے لیکن صورت حال اس طرح کی بن گئی ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر پی ڈی ایم کو فکر ہو کیونکہ دوسرے ممالک جیسے انڈیا میں بھی ریاستی انتخابات اپنے وقت سے پہلے مڈ ٹرم ہوجاتے ہیں اور اس کا مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو فرق نہیں پڑتا۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست اور ووٹر کی سائنس بالکل مختلف ہے۔ اس میں یہ نہیں ہوتا کہ آپ لاٹ صاحب بن کر گھر بیٹھے رہیں اور ووٹر آپ تک پہنچ جائیں بلکہ آپ کو ووٹر تک پہنچنا ہوتا اور ان کے ترقیاتی کام کرنے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں آپ کو ووٹ ملتے ہیں۔‘

بقول تاج حیدر: ’میرے خیال میں پی ڈی ایم اگر اپنے ووٹر تک پہنچے گی تو انہیں انتخابات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پی ڈی ایم پنجاب میں بھی انتخاب جیت سکتی ہے، خیبرپختونخوا میں بھی جیت سکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ ووٹرز تک پہنچیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر پی ڈی ایم جماعتیں اپنے ووٹر سے جڑی ہیں تو انتخابات پہلے ہوں، بعد میں ہوں، اکٹھے ہوں یا علیحدہ علیحدہ، ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان