اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ: فائدہ مند یا نقصان دہ؟

قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان بھی بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں کیا گیا اور نتیجتاً اب پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتی ہے، لیکن ایسا کرنا اس کے لیے ایک بڑی سیاسی شرمندگی ہو گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکومت مخالف مارچ کے دوران حکم نومبر 2022 کو گوجرانوالہ میں خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پنجاب اور خیبر پختوخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ عمران خان کے گلے پڑ چکا ہے کیونکہ دونوں صوبوں میں ان کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت اس فیصلے کے خلاف ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی اوپر تلے کئی انٹرویوز میں عمران خان کے بیانیے کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔

اپنے گذشتہ کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ عمران خان کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ سیاسی طور پر کیسے ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔

گذشتہ سات ماہ میں عمران خان کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انہیں جو ناقابل یقین سپورٹ ملی، اسے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کیش کرنے میں ناکام رہے۔

نام نہاد امریکی سازش کے بیانیے پر انہی سطور میں تحریر کر چکا ہوں کہ یہ بیانیہ بیچ چوراہے پھوٹے گا اور ہوا بھی اسی طرح۔

قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان بھی بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں کیا گیا اور نتیجتاً اب پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتی ہے، لیکن ایسا کرنا اس کے لیے ایک بڑی سیاسی شرمندگی ہو گی۔

اسی طرح عمران خان کا سب سے بڑا اور اہم مقصد جلد انتخابات کا حصول تھا کیونکہ وہ خود کو ملنے والی عوامی سپورٹ کو جلد از جلد کیش کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسی سیاسی چالیں چل گئے کہ انتخابات جلد ہونا تو دور کی بات شاید ان میں چند ماہ تاخیر ہو جائے۔

لانگ مارچ کا آغاز تو وہ اچھا کر گئے لیکن مارچ کے اختتام پر عمران خان کا پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کا اعلان انہیں سیاسی فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان دے گا۔

اس وقت ق لیگ وِن وِن صورت حال میں آ چکی ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے  پی ٹی آئی سے آئندہ انتخابات میں دو درجن سیٹوں کا وعدہ لینا ق لیگ کی ایک بڑی سیاسی جیت ہے۔

ایسا کرنے سے ق لیگ ایک دفعہ پھر آئندہ عام انتخابات میں ایک مضبوط سیاسی گروپ کے طور پر سامنے آجائے گی اور شاید وزارت اعلیٰ کا قرعہ ایک دفعہ پھر پرویز الٰہی کے نام نکل آئے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان نے پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوا کر اور پھر اسمبلیاں تحلیل کروانے کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حامی بھر کر، آخرکار حاصل کیا کیا؟ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل بھی ہو جائے تو کیا عمران خان قبل از وقت انتخابات کا اپنا ٹارگٹ حاصل کر پائیں گے؟

فی الحال اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا پھر باقی ماندہ مقتدر حلقے، سب ہی اس بات پر آمادہ ہیں کہ موجودہ حالات میں ملک انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یعنی عمران خان ایک دفعہ پھر غلط سیاسی فیصلہ کر بیٹھے۔ اگر قبل از وقت انتخابات کے لیے واقعی دباؤ بڑھانا تھا تو عدم اعتماد کے فوراً بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دیتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے پنجاب میں 10 سیٹوں والی جماعت کی جھولی میں وزارت اعلیٰ ڈال کر اپنی پارٹی کو ناراض کر دیا۔

اور اب وہی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے لیے دو درجن سیٹیں ق لیگ کو دینے پر تیار ہو گئے۔ اب یہ سوچیں کہ اگر 30 حلقوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار نہ کھڑے ہو سکیں تو کیا وہ ق لیگ کو سپورٹ کریں گے یا اپنے اپنے حلقے کی سیاست بچانے کو ترجیح دیں گے؟ یہاں بھی اس فیصلے کا نقصان بطور جماعت تحریک انصاف کو ہی پہنچے گا۔

اس وقت حکومت کسی صورت پنجاب میں انتخابات کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی۔ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہو بھی گئی تو کئی قانونی آپشنز پر غور کیا جا چکا ہے۔ نہ صرف پنجاب میں نگران کابینہ کی تشکیل پر پی ڈی ایم جماعتوں کا مکمل کنٹرول ہو گا بلکہ پختونخوا جسے پی ٹی آئی اپنا گڑھ سمجھتی ہے، وہاں کے معاملات بھی 10 سال بعد تحریک انصاف کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔

خان صاحب کے اپنی ہی حکومتوں پر خودکش حملے کے فیصلے کو جس زاویے سے بھی پرکھنے کی کوشش کی جائے یہ مستقبل کی سیاست میں ان کے پارٹی کے لیے گھاٹے کا سودا ہے، لیکن بار بار کیوں وہ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں؟ اس کا جواب پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کے پاس تو نہیں لیکن صرف عمران خان ہی جواب دے سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ