یورپ:غیرقانونی تارکین کو واپس نہ لینے والےملکوں پر ویزہ شرائط سخت

یورپی یونین نے پاکستان سمیت ان ممالک کے شہریوں پر ویزوں کی سخت شرائط پر اتفاق کیا ہے جو یورپ میں مقیم اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

چار اکتوبر 2016 کی اس تصویر میں سربیا کے دارالحکومت بلغراد سے تارکین وطن ہنگری کی جانب پیدل مارچ کرتے ہوئے(اے ایف پی)

یورپی یونین نے پاکستان سمیت ان ممالک کے شہریوں پر ویزوں کی سخت شرائط پر اتفاق کیا ہے جو یورپ میں مقیم اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

سویڈن کی مائیگریشن کی وزیر ماریا مالمر سٹینرگارڈ نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ ’یورپی بلاک کے وزرا داخلہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ 2020 کے بعد سے موجود اس ’کارروائی پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے‘ تاکہ پناہ کی درخواستیں ناکام ہونے کے بعد اپنے آبائی ممالک کو واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کی تعداد کو بڑھایا جا سکے۔‘

یورپی یونین کی صدارت کرنے والے سویڈن نے سٹاک ہوم میں وزرا داخلہ کے اجلاس کی میزبانی کی جس کے بعد ماریا مالمر مزید بتایا: ’اگر سیاسی اور سفارتی کوششوں کو تیز کرنے سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں تو بلاک کے رکن ممالک (یورپی) کمیشن سے ویزا پابندیوں سے متعلق تجاویز کے ساتھ یورپی کونسل میں واپس آنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

اس سخت اقدام کی عکاسی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لین نے جمعرات کو یورپی یونین کے ممالک کے رہنماؤں کو بھیجے گئے خطوط میں بھی کی ہے۔ اس مسئلے پر نو فروری سے شروع ہونے والے یورپی یونین سربراہی اجلاس میں بات کی جائے گی۔

وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک رواں سال کی پہلی ششماہی میں ایک پائلٹ سکیم پر دستخط کر سکتے ہیں تاکہ اہل تارکین وطن کی سکریننگ اور پناہ کے طریقہ کار کو تیز کیا جا سکے اور پناہ کی درخواست مسترد ہونے والے افراد کی ’فوری واپسی‘ کو ممکن بنایا جا سکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یورپی یونین ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست تیار کرے اور بلاک کے لیے بحیرہ روم اور مغربی بلقان کے ان راستوں پر سرحدی نگرانی کو مضبوط بنائے جن کو تارکین وطن یورپ جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وان ڈیر لین نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، مراکش، تیونس اور نائیجیریا جیسے ممالک کے ساتھ مائیگریشن کے معاہدے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ ان ممالک کے شہریوں کی ’واپسی کو بہتر بنایا جا سکے اور یہاں سے مزید افراد کی آمد کو روکا جا سکے۔‘

یورپی یونین کے امورِ داخلہ کی کمشنر یلوا جوہانسن نے زور دے کر کہا کہ ’یورپی یونین کے بہت سے ممالک زیادہ دباؤ کا شکار ہیں جنہیں گذشتہ سال پناہ کی تقریباً دس لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یورپی یونین نے اپنے ملک میں روس کی جنگ سے فرار ہونے والے تقریباً 40 لاکھ یوکرینی مہاجرین کی میزبانی کر کے اپنی صلاحیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔‘

یورپی کمیشن کے اعداد و شمار تارکین وطن کی موثر واپسی کی کم شرح کو ظاہر کرتے ہیں۔

2021 میں تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجنے کے 340,500 عدالتی آرڈرز میں سے صرف 21 فیصد پر عمل ہوا۔

یورپی یونین ان ممالک کے لیے مختلف پروگراموں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہے جو اپنے ان شہریوں کو دوبارہ قبول کرتے ہیں جنہوں نے یورپ میں پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔

یہ اقدام عدالتی یا انتظامی حکم ناموں کی بنیاد پر ملک بدری یا جبری واپسی سے الگ ہے۔

سویڈن، جس کی حکومت کو اقتدار میں رہنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کی جماعت سویڈن ڈیموکریٹس کے اتحاد کی ضرورت ہے، چاہتی ہے کہ یورپی یونین کے ممالک ویزوں، خارجہ پالیسی اور ترقیاتی امداد سے فائدہ اٹھائیں تاکہ تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر متعلقہ ممالک پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

اب تک یورپی یونین نے ویزا پابندی کے اقدام کو صرف ایک ملک گیمبیا کے خلاف لاگو کیا ہے جس کے شہریوں کے لیے شینجن ویزا حاصل کرنا زیادہ مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے۔

کمیشن نے 2021 میں اس طریقہ کار کو بنگلہ دیش اور عراق تک توسیع دینے کی تجویز دی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوہانسن نے نومبر میں بنگلہ دیش کے دورے کے بعد کہا تھا کہ ویزا پابندیوں کے خطرے نے ڈھاکہ پر یورپ سے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس قبول کرنے کے لیے مزید ’سیاسی دباؤ‘ ڈالا ہے۔

2015 اور 2016 کے بعد سے یورپ میں اس وقت مائیگریشن کا قانون مجموعی سخت ہو گیا ہے جب ان ممالک نے 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کیا تھا جن میں سے زیادہ تر شامی شہری تھے جو اپنے ملک میں جنگ سے بچ کر یورپ پہنچے تھے۔

یورپی بلاک نے 2016 میں ترکی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ میں زیادہ تر آمد کو روکا جا سکے۔

آسٹریا یورپی یونین کے رکن بلغاریہ کی ترکی کے ساتھ سرحد پر تعمیر کی گئی باڑ کی حمایت کرتا ہے تاکہ پناہ کے متلاشیوں کے براعظم میں داخلے کو مزید کم کیا جا سکے۔

آسٹریا کے چانسلر کارل نیہمر نے پیر کو اس سرحدی علاقے کے دورے کے دوران کہا کہ ’اس باڑ پر تقریباً دو ارب یورو لاگت آئے گی اور یورپی کمیشن سے اس کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔‘

تاہم یورپی کمیشن ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جو اس کے بجائے یونین کی سرحدی پیٹرولنگ ایجنسی کے کردار کو بڑھانا چاہتی ہے۔

جوہانسن نے کہا کہ انہوں نے مالی بنیادوں پر باڑ کی تجویز پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ رکن ممالک کی نمائندگی کرنے والی یورپی کونسل نے 2021 سے2027 کے لیے اس محکمہ کے بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ