ترکی غریب پناہ گزینوں کے لیے اچھی جگہ نہیں: افغان تارکین وطن

’کارکن سے لے کر مالک تک، ہر کوئی ہم پر چیختا ہے ’اگر ایک ترک کارکن 100 لیرا کمانے کے لیے دو گھنٹے کام کرتا ہے تو ایک افغان کارکن کو 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔‘

افغان پناہ گزین  18 نومبر 2021 کو استنبول میں کچرا اٹھاتے ہوئے (اے ایف پی)

انقرہ کی مصروف ترین گلیوں میں سے ایک پر ٹہلتے ہوئے، میں گھوڑے پر سوار اتاترک کے مجسمے کو دیکھ رہا تھا، سردی شدید تھی، اچانک ایک بوڑھے آدمی نے چیخ کر کہا ’ہم وطن، کیسے ہو؟‘

اس کی آواز مقامی بلخیوں جیسی تھی جو سلام دعا کے بغیر اور بہت بلند آواز میں بات کرتے ہیں۔ اس سرد رات میں اس نے ایک پتلی جیکٹ اور پرانے جوتے پہن رکھے تھے۔ 

اس نے بات کرتے ہوئے کہا ’میں نے صحیح اندازہ لگایا، آپ میرے ہم وطن ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو میں بھکاری نہیں لگوں گا، میں صرف چند لمحے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔‘

افغانستان میں سڑک پر مانگنے والوں کا لوگوں کو سلام کرنا اور سچی یا فرضی کہانی سنا کر پیسے مانگنا عام ہے۔ 

بوڑھے نے کہا ’میں دو ہفتے قبل اپنے سات فیملی ممبرز سمیت ایران سے ترکی پہنچا تھا اور اب میں نوکری کی تلاش میں ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ یہاں الوس محلے میں افغانوں کے بہت سے نجی کاروبار ہیں۔ میں سلائی اور قصاب کا کام جانتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس کام ہے تو میں کام کرنا چاہتا ہوں۔‘ 

اس نے اپنی جیب سے کاغذ کا ایک چھوٹا ٹکڑا نکال کر مجھے دیا۔  رابطہ نمبر کے ساتھ لکھا تھا: محمد مزاری۔

محمد مزاری نے کہا کہ طالبان کے بعد مزار شریف میں کاروبار بند ہو گیا اور ان کے لیے روزی کمانا مشکل ہو گیا۔ وہ اور ان کا خاندان ایران چلا گیا اور افغانستان ڈی پورٹ ہونے کے خوف سے دو ماہ کے بعد وہ ترکی آ گئے۔ ان کے پاس سفری دستاویزات ناکافی تھے۔ 

انہوں نے سمگلروں کو بھاری قیمت ادا کی اور پہاڑی سرحدی راستوں سے انقرہ کا سفر کیا۔ محمد مزاری اور ان کا خاندان اب انقرہ کے مضافات میں ایک خستہ حال مکان میں رہتے ہیں۔  محمد مزاری نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی تک رہائشی دستاویزات نہیں ہیں ’اپنا وسیع دسترخوان اور آسائشیں چھوڑ کر ہم یہاں آن بیٹھے ہیں، پہاڑ کے کنارے چھوٹا سا گھر ہے اور ہم اس میں دن رات گزارتے ہیں۔‘

محمد مزاری نے مزید کہا کہ دو ہفتے ترکی میں رہنے کے بعد انہیں ابھی یہ احساس ہوا ہے کہ ترکی وہ جنت نہیں ہے جس کی تصویر افغانستان اور ایران میں دکھائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ’یہاں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے کہ مجھے اور میرے خاندان اور ہزاروں دیگر خاندانوں کی ایسی صورتحال میں مدد کی جا سکے۔ ہم نے سوچا کہ بین الاقوامی تنظیمیں یہاں تارکین وطن کی مدد کر رہی ہیں، لیکن یہ سہولیات بہت محدود ہیں اور ہر کسی کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔‘

پچھلی افغان حکومت کے خاتمے کے بعد افغان ہجرت کی ایک نئی لہر آئی اور ہزاروں خاندانوں نے ایران، پاکستان اور ترکی سمیت خطے کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی۔ نارویجن ریفیوجی ایجنسی کی نومبر 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگست سے نومبر کے درمیان روزانہ 4000 سے 5000 افغان غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوئے۔ 

ایران سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا عمل تیز ہونے کے بعد اس تعداد میں آسانی ہو سکتی ہے، لیکن طالبان کے ہاتھ لگ جانے کے خوف سے چھپے رہنے والے ہزاروں افراد افغانستان چھوڑنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔

ڈیڑھ سال قبل افغانستان سے ترکی آنے والے سجاد سروش اب انقرہ میں ہیئر ڈریسر ہیں۔ 

سروش اور ان کے ساتھی، نوجوان لڑکیاں اور لڑکے، ہر روز بہت سے افغانوں سے ملتے ہیں جنہوں نے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے، سابق افغان حکومت کے اہلکاروں سے لے کر بے گھر افراد تک۔ 

سروش کے مطابق، چرواہے سے لے کر سوداگر تک، ہر چند دن بعد اس کے پاس میک اپ اور بال کٹوانے کے لیے آتے ہیں۔ سجاد سوروش کا کہنا ہے کہ ترکی ایک مستحکم اور خوبصورت ملک ہے لیکن کارکنوں اور پناہ گزینوں کے لیے نہیں۔ 

’ترکی تارکین وطن اور مزدوروں کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے، خاص طور پر ان افغانوں کے لیے، جن کا کام وہاں بہتر ہے۔ ترکی اچھا ہوا کرتا تھا، لیکن طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے۔ کارکن سے لے کر مالک تک، ہر کوئی ہم پر چیختا ہے ’اگر ایک ترک کارکن 100 لیرا کمانے کے لیے دو گھنٹے کام کرتا ہے تو ایک افغان کارکن کو 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔‘

سجاد سروش نے مزید کہا کہ افغانوں کے لیے گھر تلاش کرنا، ترکی میں سرکاری اور مستقل رہائش رکھنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ ’رئیل سٹیٹ کمپنیوں کے مالکان، جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ افغانی ہیں، کہتے ہیں ’ہمارے پاس کوئی گھر نہیں ہے‘ انہوں نے گھر کی تلاش کے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا۔ 

آجر افغان کارکنوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔ میزبان برادری میں امتیازی سلوک اور نسل پرستانہ رویے کی سطح میں بے مثال اضافہ ہوا ہے۔ شاید ان تمام رویوں کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی حکومت نہیں ہے۔ ’وہاں کم از کم ایک حکومت ہوتی تھی جسے دنیا نے تسلیم کیا تھا۔‘

سروش کا خیال ہے کہ افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کی ایک وجہ افغانستان میں قانونی حکومت کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے سے قبل افغان پناہ گزینوں کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً مسائل کے خلاف احتجاج کرتی رہیں اور افغان سیاسی پارٹیوں اور سفیروں نے پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی حد تک کام کیا، لیکن اب جب کہ طالبان آئے ہیں، احتجاج کرنے اور مدد مانگنے کی کوئی جگہ نہیں بچی۔

سروش کے مطابق ترکی میں افغان تارکین وطن کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری، مہنگائی اور پناہ گزین مخالف رویوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 

ان کے مطابق ترکی میں حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں اور یورپی سرحدوں کی بندش کی وجہ سے تارکین وطن نہ تو یورپ اور افغانستان جا سکتے ہیں اور نہ ہی ترکی میں رہ سکتے ہیں۔ 

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو بہت سے افغان پناہ گزین ایران یا افغانستان واپس جانے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ ان دونوں ملکوں میں رہنا سستا ہے اور روز کا خرچ ایک دیہاڑی دار مزدور پورا کر سکتا ہے۔ سفری دستاویزات کے بغیر افغان کارکن کے لیے ترکی میں کچھ ممکن نہیں۔

ترکی، افغان دولت کا بے حساب خزانہ

ایک طرف جہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افغان تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی ترکی میں زندگی گزارنے کی مشکلات کی شکایت کرتے ہیں، دوسری جانب یہاں افغان حکومت کے سابق اہلکاروں کی بے حساب دولت بھی موجود ہے۔ نائب صدور، وزرا، فوجی کمانڈر اور افغان حکومت کے سینکڑوں سابق عہدیدار اب ترکی کے مختلف شہروں میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈاکٹر سید لعل (فرضی نام) ایک افغان ڈاکٹر ہیں جو اب انقرہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ترکی ان لوگوں کے لیے دنیا کے بہترین ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے ملکوں سے پیسہ اور دولت لاتے ہیں، کیونکہ یہاں یورپی ممالک کے مقابلے میں کم ٹیکس اور سستی زندگی ہے۔ ہاں، یہ محنت کش طبقے اور تارکین وطن کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے، کیونکہ حکومتی ڈھانچہ تارکین وطن کی حمایت نہیں کرتا اور بین الاقوامی تنظیمیں اس سلسلے میں سرگرم نہیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان اور اغوا کاروں کے خوف سے اپنے ملک سے فرار ہونے والے افغان ڈاکٹر کے مطابق، حالیہ برسوں میں افغانستان میں جنگ بڑھنے کے بعد، ترکی افغان حکومت کے سابق اہلکاروں کی بڑی دولت کی منتقلی کے لیے اہم ترین مقامات میں سے ایک رہا ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں میں ان کے ہوٹل، چین سٹورز اور لگژری محلات ہیں۔

ڈاکٹر لعل کا کہنا ہے کہ ترکی نے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے جو سہولیات فراہم کیں ان کی وجہ سے دولت مند اور سابق افغان حکومت کے اہلکار ترکی کے مختلف شہروں میں نقد سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہوئے۔

اگرچہ ترکی نے افراد اور کاروباری اداروں کو سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے کافی سہولیات فراہم کی ہیں، تاہم وہ ایران، شام اور عراق کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سخت قوانین نافذ کرتا ہے تاکہ تارکین وطن کو داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ اگرچہ ان ضوابط نے تارکین وطن کے داخلے پر مکمل پابندی نہیں لگائی ہے لیکن ترکی میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ