ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں زبردست گراوٹ کے بعد غیر ملکی خریدار رعایتی قیمتوں پر سامان خریدنے کے لیے مغربی صوبے ادرنہ میں ترکی کے ساتھ سرحد عبور کر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق زرمبادلہ کے اتار چڑھاؤ نے مقامی بازاروں اور مالز میں غیر ملکی خریداروں کو نئی قوت خرید فراہم کی ہے، اور بڑی تعداد میں بلغاریہ اور یونان کے باشندے ترک صوبے ادرنہ میں شاپنگ کرنے آ رہے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوغان نے اتوار کو ترکوں کی قوت خرید کو کم کرنے والی افراط زر کو لگام لگانے کا عزم کرتے ہوئے بلند شرح سود کی بھرپور مخالفت کی ہے۔
اردوغان ’معاشی آزادی کی جنگ‘ کے ایک حصے کے طور پر روائتی معاشی سوچ کے خلاف ہیں اور وہ بار بار دلیل دیتے ہیں کہ بلند شرح سود مہنگائی کو بڑھاتی ہے۔
انہوں نے ہفتے کو ترکی- افریقہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر کہا کہ ’جلد یا بدیر، جس طرح ہم نے اقتدار میں آنے پر افراط زر کو چار فیصد تک کم کیا۔۔۔ ہم اسے دوبارہ کم کریں گے۔‘
اتوار کو جاری ہونے والی ایک ویڈیو کے مطابق، ترک رہنما نے افریقی نوجوانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا، ’میں اپنے شہریوں، اپنے لوگوں کو سود کی شرح سے کچلنے نہیں دوں گا۔ انشاء اللہ مہنگائی جلد از جلد کم ہو گی۔‘
اے ایف پی کے مطابق صدر اردوغان کے دباؤ میں آ کر مرکزی بینک نے ستمبر سے مرکزی شرح سود میں 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بینک نے گذشتہ ہفتے چوتھی بار شرح کم کی حالانکہ نومبر میں مہنگائی کی سالانہ شرح 21.31 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ ماہرین نے اس ماہ مزید اضافے کی پیش گوئی کی تھی۔
ترکی کو اگست 2018 کے بعد سے کرنسی کے بدترین بحران کا سامنا ہے جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تنازعے کے بعد لیرا کی قدر تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
جریدے دی اکنامسٹ کے مطابق 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک مصنوعات جیسے کہ سٹیل اور المونیم پر عائد ٹیرف کو دگنا کر دیا تھا جس کے بعد ترک لیرا کی قیمت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
نومبر کے آغاز سے ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں 40 فیصد تک کمی ہوئی اور مزید متوقع ہے۔
روئٹرز کے مطابق کرنسی کے بحران نے کئی ترک شہریوں کو سرکاری طور پر طے شدہ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے، اور ہفتے کے اختتام پر کئی شہری انقرہ اور استنبول میں احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔
دوسری جانب ترک کرنسی کی قدر میں کمی نے سیاحوں کی چاندی کر دی ہے، جو خریداری کے لیے سرحد پار کرکے ترکی آ رہے ہیں۔
ادرنہ میں ایک تاجر تنظیم کے سربراہ بولینٹ رائسوگلو نے بتایا کہ مارکیٹ میں عمومی طور پر ایک غیر متوقع صدمے کی کیفیت ہے۔ ’ہم بھی ششدر ہیں۔ کسی کو اس قدر اضافے اور اتنی قدر میں کمی کی توقع نہیں تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ ہم وہ تاجر ہیں جو مصنوعات بناتے ہیں۔ خام مال کی قیمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ مستحکم نہیں ہوتی۔‘
بلغاریہ سے آئے ایک خریدار ٹنکو گاریو کے خیال میں اگر ترکی کے حکمران وہی کریں جو انہیں کرنا چاہیے تو لیرا اس موسم گرما کی سطح پر بہت بہت جلد واپس آ سکتا ہے۔
بلغاریہ سے ہی ایک ٹور گروپ کو لانے والی گائیڈ ڈینیئلا مرچیوا نے کہا: ’ہمارے لیے یہ بحران بہت اچھا ہے، مگر ترک شہریوں کے لیے برا ہے۔ 10، 12 سال پہلے ہم بھی اسی صورت حال میں تھے۔ یہ بہت مشکل ہے۔‘