کیا محسن داوڑ، علی وزیر کیس کی سماعت بے جا طوالت کا شکار ہے؟

ان کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکلین سے سیاسی قیدیوں کی بجائے عام قیدیوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کے کیس کو بلاضرورت طول دیا جا رہا ہے۔

دونوں ارکان اسمبلی ہری پور جیل میں زیر حراست ہیں(اے ایف پی)۔

خیبر پختونخوا کے ضلع وزیرستان سے منتخب اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کے کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے  جج کی رخصتی کی وجہ سے ان کے وکلاء کے مطابق کیس کی سماعت گذشتہ دو ماہ سے تاخئر کا شکار ہے۔

دونوں اراکین اسمبلی وزیرستان کے علاقے خڑ کمر چیک پوسٹ میں پشتون تحفظ موومنٹ اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان ’تصادم‘ اور ہلاکتوں کی وجہ سے حراست میں ہیں۔

ان اراکین اسمبلی پر الزام ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو اشتعال دلا کر سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک ہوگئے۔

دونوں ارکان اسمبلی ہری پور جیل میں زیر حراست ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کے وکلا کی ٹیم میں پشاور ہائی کورٹ بار کے صدرعبدالطیف، سنگین خان اور طارق افغان موجود ہیں۔

بنوں میں سنیچر کو انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس کی سماعت تھی۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وکلا کی ٹیم میں شامل طارق افغان نے بتایا کیس کی 18 جولائی کو ہونے والی سماعت میں جج نے خود 25 جولائی کی تاریخ آئندہ سماعت کے لیے مقرر کی لیکن 24 جولائی کو جج نے بتایا کہ وہ چھٹی پر جا رہے ہیں اور مقدمے کو شمالی وزیرستان کے سیشن جج کو مارک کیا کہ وہ اس کیس کو سنیں جس پر حکومتی وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔

طارق افغان نے بتایا کہ ان کے موکلین سے سیاسی قیدیوں کی بجائے عام قیدیوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کے کیس کو بلاضرورت طول دیا جا رہا ہے نیز مقدمے کی سماعت سست روی کا شکار ہے۔

’ہم نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے موکلین کو ضمانت پر رہا کیا جائے جس پرعدالت نے فیصلے کے لیے آٹھ اگست کی تاریخ مقرر کی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اگر بنوں عدالت کی جانب سے ضمانت کی درخواست خارج کی گئی تو وہ پشاور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملزمان پر جرم ثابت ہونے کے حوالے سے طارق افغان کا کہنا تھا کہ حکومتی وکلا کی جانب سے کیس کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرانے میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے عدالت نے صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔

استغاثہ یا حکومتی وکلا کیا کہتے ہیں؟

استغاثہ کے وکیل سردار رؤف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیس میں کسی قسم کی طوالت نہیں کی جا رہی لیکن آج عدالت میں جو جج اس کیس کو سن رہا تھا وہ قانونا اس کو نہیں سن سکتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کیسز کو دوسرا کوئی جج نہیں سن سکتا اور اگر جج چھٹی پر ہوں تو اس کے لیے فورم موجود ہے۔

’جج کی رخصتی اگر ہو تو ملزمان کے وکلاء کو پشاور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا کہ وہ ضمانت کی درخواست کو سنیں اور اس پر فیصلہ دیں۔ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی طوالت کیس میں نہیں ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ملزمان نے چیک پوسٹ پر مبینہ حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس پر ہم بالکل کلئیر ہیں اور کیس کو فالو کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان