محسن داوڑ، علی وزیر گرفتاری: قانون کیا کہتا ہے؟

دونوں اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے بعد اس عمل میں قانونی پیچیدگیوں کا موضوع زیر بحث ہے۔

ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر تصادم کے سلسلے میں گرفتاری کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا ان دونوں ارکان پارلیمان کی گرفتاری میں تمام ترقانونی پیچیدگیوں کا خیال رکھا گیا تھا یا نہیں۔

اسی طرح ان دونوں ارکان پارلیمان کو اسمبلی میں لانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپیکر اسمبلی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ دونوں گرفتار ارکان کو اسمبلی میں لایا جائے۔

اس مضمون مین انڈپینڈںٹ اردو نے ارکان پارلیمان کی گرفتاری کے حوالے سے قانونی راستوں پر ماہرین سے بات کی ہے اور اس حوالے سے قانون کو بھی پرکھا ہے۔

قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ کی شق نمبر103 کے مطابق اگر کسی بھی رکن پارلیمان کو فوجداری کیس میں گرفتار کیا جائے یا اس کو کسی عدالت کی جانب سے سزا دی جائے تو جج یا مجسٹریٹ یا قانون نافذ کرنے والی اتھارٹی (پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے) اس گرفتاری یا سزا کے بارے میں اسمبلی کے سپیکر کو جتنا جلد ہو سکے مطلع کرے گا۔

اسی شق میں یہ بھی درج ہے کہ کہ سپیکر کو پوری تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا کہ رکن کو کیوں، کہاں اور کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ البتہ اس قانون میں یہ درج نہیں کہ کسی رکن پارلیمان کو سپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ لکھا گیا ہے کہ گرفتاری کے بعد سپیکر کو مطلع کرنا لازمی ہے۔

اس کے علاوہ اسی قاعدے کے شق نمبر104 میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جب رکن پارلیمان ضمانت پر رہا یا عدالت سے بری ہو جائے تو اس کے بارے میں میں بھی سپیکر کو بتانا لازمی ہوگا۔

یہ شق ارکان پارلیمان کی اسبملی کے احاطے کے باہر کے معاملے کے حوالے سے ہے۔ اگر کسی رکن اسمبلی پر پرچہ کٹا ہو اور پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہو لیکن وہ اسمبلی کے احاطے میں موجود ہوں تو سپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتاری نہیں کی جا سکتی۔

شق نمبر 107 کے مطابق کسی بھی رکن پارلیمان پر اسمبلی کے احاطے میں کوئی عدالتی یا ٹریبیونل یا کسی اتھارٹی کا فیصلہ اس وقت تک نافذ نہیں کیا جا سکتا جب تک سپیکر اسمبلی سے پہلے اجازت نہ لی جائے۔

ایسا ہی ایک کیس 2017 میں سابق رکن اسمبلی جمشید دستی کی گرفتاری کے وقت سامنے آیا تھا۔ اس معاملے پر اس وقت پیپلز پارٹی کے اپوزیشن رہنما خورشید شاہ کی جانب سے جمشید دستی کی گرفتاری پر بہت تنقید کی گئی تھی۔

اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق تھے۔ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹوڈے میں چھپی اس وقت کی خبر کے مطابق ایاز صادق نے اسمبلی کو بتایا تھا کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو اسمبلی احاطے سے باہر گرفتاری کے لیے سپیکر کی اجازت کی ضروت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اجازت صرف اس وقت درکار ہوتی ہے جب رکن اسمبلی، اسمبلی کے احاطے میں موجود ہوں۔ اسمبلی سے باہر صرف سپیکر کو گرفتاری کے بعد بتانا لازمی ہے۔

سپیکر کو بتانے کے بعد کیا کارروائی کی جاتی ہے ؟َ

اسمبلی رولز کی شق نمبر105 میں درج ہے کہ جب سپیکر اسمبلی کو بتایا جائے کہ رکن پارلیمان کو گرفتار یا عدالت کے جانب سے سزا سنائی گئی ہے تو وہ یہ معلومات اسمبلی اجلاس میں تمام ارکان اسمبلی کو بتانے کے پابند ہوتے ہیں۔

اگر اسمبلی کا اجلاس جاری نہیں ہے اور اس قسم کا معاملہ آ جاتا ہے، تو اس صورتحال میں سپیکر کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک مراسلے کے ذریعے اسمبلی کے تمام ارکان کو اس حوالے سے بتائیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پارلیمانی رہنما سردار حسین بابک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سپیکر اسمبلی کو گرفتاری کے بارے میں نہ بتانا یا بتا کر سپیکر کا دیگر اراکین کے ساتھ شئیر نہ کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکومت بے اختیار ہے اور مہار کسی اور کے پاس ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’دو منتخب اراکین اسمبلی کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے پروڈکشن ارڈر کے بارے میں درخواستیں دی جا رہی ہے لیکن حکومت اس قانونی شق پر عمل نہ کرنے سے یہ بات عیاں کر رہی ہے کہ پارلیمان بے اختیار ہے۔ یہاں جنگل کا قانون ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔‘

پروڈکشن آرڈر کیا ہے؟َ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپیکر اسمبلی اسد قیصر کے نام خط لکھ کر اس بات کی استدعا کی ہے کہ دو گرفتار ارکان اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کو اسمبلی میں لایا جائے۔

اس خط میں لکھا ہے کہ محسن اور علی وزیر کو 27 مئی کے اسمبلی اجلاس سے پہلے گرفتار کیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے قانونی طور پر سپیکر کو 27 مئی کے اجلاس میں اسمبلی کو اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا مگر نہیں کیا گیا۔

اسی خط میں سپیکر سے کہا گیا ہے کہ دونوں ارکان پارلیمان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔

پروڈکشن آرڈر کسی بھی گرفتار رکن اسمبلی کو اسمبلی میں بلانے کے لیے ایک آرڈر ہوتا ہے۔ اسمبلی قواعد کی شق نمبر108 میں ہے کہ ایک گرفتار رکن اسمبلی کی موجودگی اگر کسی بھی اسمبلی اجلاس یا کمیٹی میٹنگ میں ضروری ہو تو سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کر کے اس رکن کو اسمبلی میں بلا سکتا ہے۔

اسی شق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سپیکر متعلقہ صوبائی حکومت یا متعلقہ اتھارٹی کے نام پروڈکشن ارڈر بھیجے گا جس پر سیکرٹری اسمبلی یا کوئی دوسرا متعلقہ آفیسر کی دستخط ہو گی۔

حکومت یا اتھارٹی اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ گرفتار رکن اسمبلی کو حفاظتی حصار میں اسمبلی اجلاس میں لائیں  اور اجلاس ختم ہونے کے بعد دوبارہ جیل لے جائیں۔

اس قانون کا استعمال پنجاب کے سابق وزیراعلٰی شہباز شریف کے لیے کیا گیا تھا جب وہ آشیانہ ہاوسنگ سکیم کیس میں قومی احتساب بیورو کی حراست میں تھے۔

شہباز شریف جب نیب کی حراست میں تھے تو اسی دوران اسمبلی اجلاس بلایا گیا تھا اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کا پہلا اجلاس ہونے جا رہا تھا جس میں شہباز شریف جو اسی کمیٹی کے صدر تھے کی شرکت ضروری تھی۔

اسمبلی سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد شہباز شریف دو دن کے لیے اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتے رہے اور بعد میں ان کو دوبارہ حراست میں دے دیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست