اس بات کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں کہ جب ہم فلاپی ڈسکس پر انحصار کیا کرتے تھے۔ لیکن ساڑھے تین انچ کی روایتی فلاپی ڈسک کی اب بھی مانگ موجود ہے۔
یہ بات ایک شخص نے کہی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ فلاپی ڈسک کی زبردست تجارت کر رہے ہیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں فلاپی ڈسکیں فراہم کرنے والے آخری شخص ہیں۔
73 سالہ ٹام پرسکی ’فلاپی ڈسک ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ یہ ایک آن لائن ڈسک ری سائیکلنگ سروس ہے جو امریکی ریاست کے شہر لیک فاریسٹ میں واقع ہے۔ فلاپی ڈسکس چاہے نئی ہوں یا پرانی وہ لے لیتے ہیں اور پھر انہیں پائیدار اور قابل اعتماد صارفین کو بھیج دیتے ہیں۔
فلاپی ڈسکوں کی ایک اور کھیپ کی گودام میں آمد کے موقعے پر پرسکی نے روئٹرز کو بتایا کہ ’وہ لوگ جو اپنے گودام کے عقبی حصے میں جاتے ہیں اور انہیں فلاپی ڈسکوں کی ایک یا دو ڈبے مل سکتے ہیں اور وہ انہیں کوڑے کے ڈھیر تک لے جانے والے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں کال کر کے کہیں کہ ’ارے! کیا آپ ان کو ہمارے ہاتھوں سے لے لیں گے؟‘ اور ہم کہتے ہیں کہ ’خوشی سے، ہاں۔‘
جہاں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں مختلف رنگوں کی ڈسکوں سے بھرے شیلف موجود ہیں۔ کچھ ڈسکوں پر لیبل لگے ہوئے ہیں اور کچھ پر نہیں ہیں۔ یہ فلاپیز انہیں پوری دنیا سے بھیجی گئی ہیں۔ پرسکی خوشی سے ڈبہ کھولتے ہیں۔ ’اور یہاں فلاپی ڈسکوں کا ایک پیکٹ رکھا ہے اور جب ہم فلاپیز لیتے ہیں تو ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ نئی ہیں یا استعمال شدہ یا کیا ہیں۔ لہذا ہم انہیں کھولیں گے اور یقینی طور پر یہاں استعمال شدہ ڈسکیں ہیں جنہیں ہم دوبارہ فارمیٹ کریں گے، نیا لیبل لگائیں گے اور پھر امید ہے کہ دوبارہ فروخت کریں گے۔‘
پرسکی کئی سال تک فلاپی ڈسکس پر کام کرتے رہے۔ درحقیقت انہوں نے میں 1990 کی دہائی میں ٹیکس کمپنی کے لیے سافٹ ویئر ڈولپمنٹ پر کام کیا۔ کمپنی کو یہ سافٹ ویئر تقسیم کرنے کے لیے اسے فلاپی ڈسکس پر ڈپلیکیٹ کرنا پڑا۔ اس طرح انہیں پتہ چلا کہ آؤٹ سورس کرنے کے مقابلے میں کمپنی کے اندر ہی سافٹ ویئر کو ڈپلیٹ کرنا سستا پڑتا ہے۔
پرسکی کوفلاپی ڈسک کے کاروبار سے پیار ہو گیا اور جب کمپنی نے فلاپی ڈسکس کا کام بند کر دیا تو انہوں نے اسے سنبھال لیا۔ اب بھی اس وقت ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں جب وہ الماری تک پہنچتے ہیں اور کمپیوٹر کے دور کی ایک نادر شے کو وہاں سے نکالتے ہیں۔ یہ آٹھ انچ کی فلاپی ڈسک ہے۔ وہ اسے پکڑ کر اس موازنہ 3.5 انچ کی روایتی ڈسک کے ساتھ کرتے ہیں۔
پرسکی کا کہنا ہے کہ ’تو کچھ لوگ اسے فلاپی ڈسک سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ واقعی پرانی چیز ہے۔ غور کریں کہ کیا یہ پرانی چیز ہے؟ اس پر ایک نظر ڈالیں۔ یہ 1970 کی دہائی کی فلاپی ڈسک ہے۔ اور ہمارے پاس واقعی سے ہزاروں کی تعداد میں فلاپیز ہیں۔ ان میں سے کچھ کام کرتی ہیں۔ کچھ ایسا نہیں۔ کچھ لوگ ان میں سے کچھ کو اب بھی انہیں صنعتی عمل میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں پرمزاح تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوال یہ ہے کہ سال 2022 میں جب س ڈی رومز، ڈی وی ڈیز یو ایس بی فلیش ڈرائیو سب ختم ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ انٹرنیٹ اور کلاؤڈ سٹوریج نے لے لی ہے تو اس صورت حال میں کون فلاپی ڈسکیں زیادہ مقدار میں خریدے گا؟ پرسکی کے پاس اس کا فوری جواب ہے۔
ان کے بقول، ’میں کہوں گا کہ سب سے زیادہ صارفین کڑھائی کے کاروبار سے وابستہ لوگ ہیں۔ مختلف آلات اور ڈائیوں تیاری کے کاروبار میں بہت سے لوگ ہیں جو فلاپی ڈسک استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے بڑے آلات ہوتے ہیں کہ آپ کو معلومات لینی اور دینی ہوتی ہیں کہ کھڑکی کتنی بڑی ہے یا فولادی ٹکڑا کاٹنے سے پہلے کتنا لمبا ہونا چاہیے۔ فضائی صنعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اب بھی ہوابازی کے کچھ آلات میں فلاپی ڈسک استعمال کرتے ہیں۔‘
پرسکی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس ایئر لائن کے شعبے کے صارفین کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ہمارے پاس صارفین کی ایک بڑی تعداد ہے جو ایئر لائن مینٹیننس کے شعبے میں ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہ نہیں جانتے کہ آج جتنے بھی طیارے اڑ رہے ہیں ان میں سے تقریباً ایک تہائی سے نصف تک، 20 سال پہلے بنائے گئے تھے۔ اور اگر آپ نے 20 یا 30 یا 40 سال سے بھی پہلے ایک ہوائی جہاز بنایا تھا تو آپ کو اس ہوائی جہاز کے کچھ آلات سے معلومات لینے اور دینے کے لیے فلاپی ڈسک کا استعمال کرنا ہوتا تھا۔‘ انہوں نے تفصیل بتائے بغیر کہا کہ انہیں انہوں نے حال ہی میں ایک ایشیائی فضائی کمپنی کا بڑا آرڈر پورا کیا ہے۔
پرسکی کے لیے یہ صرف پرانی یادوں کی بات نہیں جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ گاہک انہیں پسند کرتے ہیں بلکہ سکیورٹی بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فلاپی ڈسکیں بہت قابل اعتماد، بہت پائیدار اور مشین کے اندر اور باہر سے معلومات حاصل کرنے کا بہت اچھی طرح سمجھا جانے والا طریقہ ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں زیادہ ہیک نہ ہونے کی اضافی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے۔‘