افغان طالبان قیادت کی صفوں میں اختلافات کا خدشہ: ماہرین

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان قیادت کی صفوں میں بڑے اختلافات کا خدشہ ہے۔

28 اپریل 2022 کی اس تصویر میں افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ایک سینیئر افغان عہدیدار کی جانب سے گذشتہ ہفتے ملک کی صورت حال کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دینے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان قیادت کی صفوں میں بڑے اختلافات کا خدشہ ہے۔

عرب نیوز کے مطابق قائم مقام افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہفتے کو ایک عوامی تقریب کے دوران افغانستان کی موجودہ صورت حال پر تنقید کرنے کے بعد سرخیوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا تھا: ’موجودہ صورت حال ناقابل برداشت ہے۔ صورت حال بدتر اور غیر مستحکم ہونے کی صورت میں عوام کو اپنے قریب لانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘

طالبان وزیر داخلہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان انسانی اور معاشی بحرانوں سے نبرد آزما ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد امداد سے محروم ہیں۔

سراج الدین حقانی کے اس بیان پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی رہنما یا عہدیدار کی جانب سے تنقید اندرونی سطح پر کی جانی چاہیے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اس حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2021 میں ملک کا کنٹرول سنبھالنے والے طالبان کو اپنی قیادت میں بڑے اختلافات کا سامنا ہے۔

کابل کی سلام یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر حمزہ مومن حکیمی نے کہا کہ طالبان دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایک دھڑا اقلیتی لیکن طاقتور ارکان پر مشتمل ہے جو افغانستان میں طاقتور عہدوں پر فائز ہیں اور ’اسلام کی تنگ نظر تفہیم پر مشتمل اپنا بیانیہ مسلط کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا دھڑا ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے، جو افغان معاشرے میں خواتین کے کردار اور ان کے کام اور تعلیم سے متعلق پالیسیوں سمیت بہت سے معاملات پر اقلیت کی رائے کو رد کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’سراج الدین حقانی جیسے طاقتور لوگوں کی جانب سے اس طرح کے بیانات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان کے درمیان نفاق ہے۔ ایک اکثریت ہے اور ایک اقلیت ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اقلیت اکثریت سے زیادہ طاقتور ہے۔‘

کابل میں مقیم ایک افغان سیاسی ماہر محب اللہ شریف نے کہا کہ ’حقانی کے ریمارکس نے افغان عوام کے خدشات کو بھی اجاگر کیا ہے۔‘

محب اللہ شریف نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ الفاظ اور معنی افغان عوام کی خواہش کا اظہار ہیں۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان تحریک کے رہنماؤں اور اس وقت امارت اسلامیہ افغانستان کی سرکردہ شخصیات کے اسلامی اور سیاسی نقطہ نظر میں واضح فرق تھا۔‘

ماہرین کے بقول ان ابھرتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے اندرونی تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

محب اللہ شریف نے کہا: ’افغان عوام چاہتے ہیں کہ ان سرکردہ شخصیات کے درمیان یہ اختلافات آسانی اور محفوظ طریقے سے ختم ہو جائیں کیونکہ ان کے درمیان مسائل ملک میں ایک سنگین تنازع کا باعث بنیں گے اور افغانستان 90 کی دہائی میں ہونے والی خانہ جنگی میں پہنچ جائے گا۔‘

جرمنی میں مقیم ایک افغان ماہر سید بہیر سادات کا کہنا ہے کہ طالبان میں تقسیم اس گروپ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے اور ممکنہ طور پر اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’اس سے پھر افغانوں کے درمیان اندرونی لڑائی ہوسکتی ہے۔‘

سادات نے مزید کہا کہ ’اگر طالبان حکومت اور عوام کا ساتھ چاہتے ہیں تو انہیں داخلی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کرنا چاہیے تاکہ انہیں دنیا کی حمایت مل سکے، بصورت دیگر یہ جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا