جیل بھرو تحریک: ’میڈیا کے سامنے وین سے نہیں اترنا، بدنامی ہوگی‘

شام کے تقریباً چھ بجے پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان کی جانب سے ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر جیل کا دروازہ نہیں کھولا جا رہا تو کارکنان کو ہدایت دی جائے کہ وہ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں۔‘

پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان پولیس وین پر کافی دیر تک سوار رہے (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب کے بعد اجمعرات کو پشاور میں پارٹی کارکنان کی جانب سے پہلے ورکرز کنونشن اور بعد میں خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا۔

پہلے جمعرات کی صبح تقریباً 11 بجے پشاور کے ایک مقامی شادی ہال میں پی ٹی آئی کے صوبائی صدر پرویز خٹک، سابق قومی اسمبلی سپیکر اسد قیصر سمیت صوبائی قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہیں۔

تاہم پریس کانفرنس کے بعد پرویز خٹک دیگر قائدین کے ساتھ چلے گئے اور کارکنان تنہا رہ گئے لیکن کارکنان کو پریس کانفرنس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ پشاور کے ہشتنگری چوک پہنچ جائیں۔

ہشتنگری میں پارٹی کارکنان جمع تھے لیکن مجمعے کے لیے ایک تنگ روڈ کا انتخاب کیا گیا اور ابتدا میں کارکنان کی تعداد قدرے زیادہ تھی لیکن بعد میں تقریباً پانچ سو کے قریب کارکنان ہی رہ گئے تھے۔

تقریباً چار گھنٹے انتظار کے بعد پرویز خٹک اور پارٹی کی دیگر قیادت سٹیج پر آئی اور سب نے باری باری خطاب کیا۔

خطاب کے دوران پرویز خٹک نے کہا کہ ’اگر میری طرح بزرگ جیل جا سکتا ہے تو آپ لوگ جیل سے تو نہیں ڈریں گے؟‘ اس پر کارکنان نے جواب میں کہا کہ ’نہیں نہیں‘۔۔

اس دوران کارکنان خوب تھک چکے تھے کیونکہ وہ تقریباً چار گھنٹے تک قائدین کا انتظار کرتے رہے۔

خطاب کے آخر میں پرویز خٹک نے اعلان کر کے بتایا کہ وہ پولیس کی گاڑیوں میں نہیں بلکہ پشاور سینٹرل جیل جا کر گرفتاریاں پیش کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ کارکنان نے سینٹرل جیل پشاور کا رخ کیا۔

سینٹرل جیل پہنچ کر کارکنان داخلی دروازے کو پھلانگ کر اندر جانے کی کوشش کرتے رہے لیکن پولیس نے کسی کو بھی اندر جانے نہیں دیا جبکہ بعض کارکنان گیٹ کو پھلانگ کر جیل کے پہلے دروازے سے احاطے میں داخل ہو گئے تھے۔

اسی دوران گیٹ کے باہر انتظار گاہ میں پرویز خٹک سمیت باقی قیادت بھی موجود تھی اور کچھ دیر بعد پولیس کی جانب سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا گیا کہ جو کارکنان گرفتاری دینا چاہتے ہیں، وہ پولیس وین میں سوار ہو جائیں مگر صوبائی قائدین میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔

اس موقع پر پرویز خٹک نے ایک بار پھر بات کی اور کہا کہ وہ پولیس وین میں نہیں بلکہ جیل کے اندر گرفتاری دیں گے۔ جو بظاہر ممکن نہیں تھا کیونکہ پولیس کے مطابق جیل جانے کے لیے پہلے پولیس کا مقدمہ اور عدالت کا حکم ہونا ضروری ہے۔

پولیس کے اعلان کے بعد پرویز خٹک سمیت باقی سینیئر قیادت تو آگے نہیں آئی مگر کارکنان وین کی طرف بڑھے۔ مگر وین بھر جانے کے باعث بعض کارکنان وین کے اوپر چڑھ گئے اور بعض کارکنان وین کی ونڈ شیلڈ کے آگے بیٹھ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وین میں پاکستان تحریک انصاف کے پہلے سے ہی سابق رکن اسمبلی وزیر زادہ اور راوی کمار موجو تھے، جبکہ باقی کارکنان بھی وین کے اندر چلے گئے لیکن تقریباً ایک گھنٹہ اندر گزارنے کے بعد کارکنان نے وین کا دروازہ کھول کر واپس اترنے کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران وین کے باہر بھی کارکنان موجود تھے اور کارکنان نے میڈیا کے کیمرے دیکھ کر قائدین کو بتایا کہ ’ذرا رکیں، ابھی باہر نہ آئیں کیونکہ میڈیا والے دیکھ رہے ہیں اور بدنامی ہوگی‘۔

تاہم وین میں موجود کارکنان اورقیادت نے اس مشورے کو نظرانداز کر دیا۔

پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی وزیر زادہ نے وین سے اترتے ہوئے ہنس کر کارکنان سے کہا کہ ’ایک گھنٹے سے ہم اندر بیٹھے ہیں لیکن وین نہیں جا رہی اور گرمی بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ کیا بات ہوئی وین جا ہی نہیں رہی۔‘

ابھی یہ وین میں سوار ہونے اور اترنے کا معاملہ چل رہا تھا، کہ آواز آئی کہ ’مار دو اس کو کیونکہ انہوں نے قائدین کے خلاف بات کی ہے‘ اور یوں ایک نوجوان دوڑتے ہوئے آیا جس کو پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مارا جا رہا تھا۔

جب معاملے کے بارے میں پوچھا گیا بتایا گیا کہ اس کارکن نے میڈیا کو بتایا کہ پارٹی کے قائدین اور سابق اراکین اسمبلی میں سے کسی نے بھی گرفتاری نہیں دی ہے اور کارکنان کو گرفتاری دینے کا بتایا جا رہا ہے، اسی پر دیگر کارکنان ناراض ہوگئے تھے۔

اس نوجوان کو بعد میں پولیس نے بچا لیا اور معاملے کو رفع دفع کر دیا۔

شام کے تقریباً چھ بجے پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان کی جانب سے ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر جیل کا دروازہ نہیں کھولا جا رہا تو کارکنان کو ہدایت دی جائے کہ وہ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں۔‘

موقع پر موجود ایس پی سٹی عبدالسلام خالد نے میڈیا کو بتایا کہ جمعرات کو پی ٹی آئی ریلی میں کسی کارکن اور رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ضلعی انتظامیہ پشاور کی جانب سے کل رات کو بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی کارکن گرفتاری دینا چاہتا ہے، تو قریبی پولیس سٹیشن یا ڈپٹی کمشنر دفتر جا کر گرفتاری پیش کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان