جیل بھرو تحریک میں جیلیں کیسے بھری جائیں گی؟

جیل بھرو تحریک کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کیا کردار رہا ہے، کیا یہ صرف زبانی دعوؤں کی حد تک ہوتی رہی یا اس پر کبھی عمل درآمد بھی ہوا؟

اسلام آباد، 21 اکتوبر، 2022: پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کا الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج (اے ایف پی) 

حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ورکرز اور قوم تیاری کر لے، ہم نے جیل بھرو تحریک شروع کرنی ہے۔ توڑ پھوڑ کے بجائے سارے جیل بھرو تحریک کی تیاری کریں۔ میں کال دوں گا، جیسے ہی سگنل دوں گا ہم گرفتاریاں دیں گے۔‘

اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں میانوالی جلسے کے دوران بھی عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ہمیں جیلوں سے نہ ڈراؤ، ابھی میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے لگا ہوں۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی اور مسلم لیگ ن کے رہنما اور وکیل عطا اللہ تارڑ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسی تحریک چلنے پر تمام زیر سماعت اور زیر التوا مقدمات میں ضمانتوں کی درخواست واپس لی جاتی ہیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ نے بھی اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’خان صاحب جیل بھرو تحریک کے لئے پہلے اپنی گرفتاری دینا ضروری ہے۔‘

اسی حوالے سے تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تحریک انصاف کے رہنما پولیس کے سامنے سرینڈر کریں گے پھر تمام کارکنان گرفتاریاں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز کے خلاف سینکڑوں مقدمے ہیں جن میں انہوں نے ضمانتیں لے رکھی ہیں، وہ واپس دے کر سرینڈر کریں گے۔ یا پھر جہاں دفعہ 144 کا نفاذ ہے وہاں گرفتاریاں دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پہلے مرحلے میں دس ہزار لوگ مختلف حلقوں میں گرفتاریاں دیں گے اور پرامن جیل بھرو تحریک کا آغاز کریں گے۔‘

ماضی میں مختلف سیاست دان جیل بھرو تحریک کے اعلانات کرتے رہے ہیں۔

اکتوبر 2019 میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج میں جیل بھرو تحریک کا آپشن بھی موجود ہے۔‘

جیل بھرو تحریک پر قانون کیا کہتا ہے؟

سابق جج شاہ خاور سے جب سوال کیا گیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے کارکنان اور رہنما گرفتاری دینے جائیں گے تو قانون اس پر کیا کہتا ہے، بغیر مقدمات کے پولیس کیسے گرفتاری کرے گی؟ سینئر وکیل و سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ اگر گرفتاری دینے والے افراد پر پہلے سے مقدمات درج نہیں ہیں تو گرفتاری دینے کے لیے قابل دست اندازی جرم کا ہونا ضروری ہو گا ورنہ پولیس بغیر وجہ کے گرفتار نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ قانونی نکتہ یہ ہے کہ جیل جانے کے لیے ایف آئی آر یا مقدمے کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لاناگ مارچ کے دوران جن کارکنان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے درج ہوئے تھے اس میں ان تمام نامزد افراد کو اپنی ضمانتیں واپس دینا ہوں گی تاکہ پولیس گرفتار کر سکے۔

’تیسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جن پر کوئی مقدمہ نہیں ہے لیکن وہ گرفتاری دینا چاہیں تو کار سرکار میں مداخلت یا جہاں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کریں تو پولیس گرفتاری کر سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر سیاسی رہنما گرفتاری دینے کے لیے قابل دست اندازی جرم کرتے ہیں اور گرفتاری کے بعد عدالت فوری ٹرائل کر کے سزا دے دیتی ہے تو وہ سزا یافتہ ہو جائیں گے اور اس صورت میں وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکیں گے، اس لیے بھی رسک ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر عمران خان واقعی یہ تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جہاں جہاں سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے وہ بھی واپس کرنا ہو گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر تحریک انصاف اس تحریک کے لیے سنجیدہ ہے تو پہلے ان کی لیڈر شپ اپنے ضمانتی مچلکے جمع نہ کروائیں اور کہیں کہ ہم نے گرفتاری دینی ہے۔‘

جیل بھرو تحریک کا ماضی کیا ہے؟

سینئر پارلیمانی صحافی خالد محمود نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل بھرو تحریک برصغیر کی تحریک کا حصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تھا جس میں بڑے لیڈروں کے نام بھی شامل تھے۔ اسی تحریک کو گاندھی نے بھی آگے بڑھایا اور برصغیر سے انگریز راج ختم کرنے میں اس تحریک کا ہاتھ تھا۔ عملی طور پر عمل نہیں ہوا تھا لیکن اس تحریک کے لیے اجتماعات ضرور ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح 1977 میں نظام مصطفیٰ تحریک چلی تھی تو تب بھی جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔

’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں جیل بھرو تحریک کا اعلان ضرور کرتی ہیں لیکن اسے صرف دباؤ بڑھانے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مارشل لا کے ادوار میں بھی جیل بھرو تحریک کی آوازیں اُٹھیں تھیں۔‘

سابق جج شاہ خاور نے بتایا کہ ’جیل بھرو تحریکیں عمومی طور پر ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ہوتی ہیں جیسے کہ اگست 1983 میں ضیا کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں نے یکجا ہو کر تحریک شروع کی تھی۔

انہوں نے کہا ’میں خود گواہ ہوں مارشل لا کے وقت دفعہ 13/33 ایم ایل آر لاگو کی جاتی تھی۔ مارشل لا کے دوران اگر کوئی بھی جلسہ جلوس ہوتا تھا یا حکومت کے خلاف نعرے بازی ہوتی تھی۔ تو اُن پر یہ دفع لاگو ہو جاتی تھی تو پولیس اُن کو گرفتار کر لیتی تھی۔ اور یہ اجتماعات کمیٹی چوک راولپنڈی میں ہوتے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست