کشمیر کے ساتھ ’دھاندلی‘ پر پاکستانی سیاستدانوں کی مذمت

بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی پاکستانی سیاستدانوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پاکستانی سیاستدانوں نے نئی دہلی حکومت کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے (فائل تصاویر: اے ایف پی)

بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کردی، جسے مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے اس غیرقانونی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ آپشن استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی رُو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری، ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے، تاہم اب اس آرٹیکل کے خاتمے سے بھارتی شہری بھی کشمیر میں جائیداد کے مالک بن سکیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف جہاں جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے  بھارت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تنازع کشمیر مزید پیچیدہ ہوگیا ہے، وہیں پاکستانی سیاستدانوں نے بھی نئی دہلی حکومت کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: ’جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کی کوشش سے بھارت نے اقوام عالم، بین الاقوامی قانونی اورسلامتی کونسل کی قراردادوں کو چیلنج کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’لداخ کے الگ درجے اور جموں و کشمیر کو بھارتی وفاق کے ساتھ نتھی کرنا کھلم کھلا دھاندلی، قانون شکنی اور جنوبی ایشیا اور دنیا کے امن کو تباہی سے دوچار کرنے کی سازش ہے۔ تمام مہذب اور قانون و انصاف پسند اقوام اس جنونی سوچ کو روکنے میں اپنا فعال کردار ادا کرکے دنیا کے امن کو بچائیں۔‘

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھارتی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’پاکستان کو تمام دوست ممالک کو ایک مضبوط اور فیصلہ کن حکمت عملی کے لیے ساتھ ملانا چاہیے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی بھارت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ ’انتہا پسند بھارتی حکومتوں کے ارادے واضح ہیں۔‘

انہوں نے صدرِ مملکت عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بھی اپنی ٹویٹ میں بھارتی اقدام کی مذمت کی۔ انہوں نے لکھا:’ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا کشمیریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس بل کا مقصد (بھارت کے زیر انتظام) کشمیر کی آبادی، جغرافیہ اور مذہبی صورتحال کو تبدیل کرنا ہے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کشمیر کے عوام اور پاکستان کو قبول نہیں۔ عالمی دنیا اور اقوام متحدہ اس کشمیر مخالف صدارتی فرمان کا نوٹس لے۔‘

مولانا حامد الحق حقانی کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بھارتی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

اجلاس کے آخر میں متفقہ قرار داد کے ذریعہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلح افواج کے سربراہ سے اپیل کی گئی کہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فوری طورپر ایسا فیصلہ کرے جس سے مسئلہ کشمیر بھی سلامتی کونسل کی قرارداوں، کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد اور خواہشات کے مطابق حل ہو اور بھارت کو کشمیریوں پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کی جرات بھی نہ ہو۔‘

 یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے متفقہ قرار داد منظور کی جائے جبکہ عالمی برادری، او آئی سی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا جائے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے فوری حل کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا