سیاہ پتھروں میں صورتیں ابھارنے والے خپلو کے سنگ تراش

بلتستان کے ایک دور دراز علاقے کے دو سنگ تراش بھائیوں کی کہانی جو سنگِ خارا سے دلکش صورتیں ابھارتے ہیں۔

سنگِ خارا سے صورتیں ابھارنا آسان کام نہیں (عاشق فراز)

کوہِ قراقرم کی مغربی پٹی پر واقع دریائے شیوک کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں تھونگموس میں ایک زمانے سے ایک نہیں بلکہ دو فرہاد خون دل جلا کر، پتھر کو موم بنا کر وہ وہ شکلیں تراش رہے ہیں کہ واقعتا لگتا ہے صرف عشق ہی موجزن ہے، نہر کاٹ کر نکالنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ قریب ہی دریائے شیوک بڑے طنطنے سے گزرتا ہے۔

بلتستان کے ضلع گانچھے میں تھونگموس ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں ہے۔ یہ آخری سرحدی گاؤں فرانو کے قریب دریائے شیوک کے دائیں کنارے موجود ہے۔ کہنے کو تو یہ عام روایتی سا گاؤں ہے جہاں لوگ موسم کی سختیاں اور جغرافیائی مشکلات سے نبرد آزما رہ کر شب و روز گزارنے کے عادی ہیں لیکن یہی کہیں خاموشی سے، بڑے عرصے سے کوئی پتھریلی چٹانوں سے لڑ رہا ہے، تیشہ فرہاد لیے ’کوڑو‘ یعنی سنگ خارا کو الگ کرتا ہے اور پھر اپنی فنکارانہ انگلیاں گردش میں لا کر اسی پتھر میں سے قسم قسم کے دلکش نقش ابھارتا ہے۔

لیکن یہ تیشہ گری ایک نہیں دو افراد کر رہے ہیں، یعنی بیک وقت دو دو فرہاد آبلہ پا ہیں، اور یہ ہیں شمت پا خاندان کے حیدر اور علی جو گذشتہ نصف صدی سے پتھر تراش رہے تھے۔

ان کے چہرے جھریوں سے بھر گئے، آنکھوں کی بینائی ماند پڑ گئی، بالوں میں چاندی نے ڈیرا جما لیا مگر ان کے ہاتھ ہیں کہ رکتے نہیں تھے قالب پر قالب ڈھال رہے تھے۔

رنگ ہو یا  خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

لیکن ایک کی ہمت جواب دے گئی۔ روزی علی چند مہینے پہلے جاں سے گزر گئے۔ حیدر نے کچھ دن چپ سادھ لی، علی اس کا بڑا بھائی تھا، سوچا سب کچھ چھوڑ چھاڑ دے، کسی خانقاہ کی ڈیوڑھی سنبھال لے مگر جس شے کی لت پڑ گئی ہو جو تخلیقی خو بو خون میں رچ بس گئی ہو وہ کہاں آسانی سے جان چھوڑ دیتی ہے۔ لہٰذا وہ غم سے سنبھلا اور اب وہی سنگ خارا اور اس کا تیشہ جس سے وہ شب و روز قسم قسم کے دلکش برتن اور پتھر کے کوزیے بنا رہا ہے۔

حیدر اور روزی علی کے ہاتھوں میں یہ ہنر اور خون میں تخلیقی جوہر اچانک در نہیں آیا ہے بلکہ یہ نسلوں کا ورثہ ہے جو وہ اگے بڑھا رہے ہیں۔

علی اور حیدر کے والد شاہ محمد اور دادا غلام حسین دونوں اس پتھر کے برتن بنانے کے ماہر تھے اور انہوں نے یہ کام گاؤں میں کسی سے سیکھا تھا کیوں بہت پہلے تھونگموس میں تقریباً ہر دوسرا گھر اسی طرح کے کام میں ماہر تھا۔

علاوہ ازیں کوستنگ گاؤں اور مرچھا گاؤں میں بھی پتھر کے برتن بنانے کا کام ہوتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا گیا ہے۔ تھونگموس میں شمت پا خاندان کے علاؤہ ٹونو پا خاندان کے افراد بھی اس کام کے لیے جانے جاتے تھے۔ یہ معلومات علی اور حیدر کے بھانجے غلام رسول نے بتائی جو بغرض کاروبار سکردو میں مقیم ہے۔

 کیوٹو یونیورسٹی جاپان کا ایک تحقیقاتی گروپ 1955 میں لداخ سے خپلو کے راستے بلتستان آیا۔ اس گروپ نے مختلف موضوعات پر ریسرچ کی اور ساتھ ساتھ علاقے کی تہذیب و ثقافت کی مختلف تصاویر بھی بنائی ہیں۔ اس وقت کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے جس میں ایک درخت کے نیچے ریت میں پانچ بزرگ بیٹھے ہیں، انہوں نے بھیڑ کی اون کا بنا لباس پہنا ہے، ایک دو کے پاؤں میں تو جوتے تک نہیں۔ ان میں سے تین کوڑو کے پتھر سے کھانا پکانے کے برتن بنا رہے ہیں۔ عمریں ان کی زیادہ لگ رہی ہیں مگر ولولہ جواں نظر آ رہا ہے، شاید ان کا تعلق بھی چھوربٹ سے ہے۔

مولوی علی اور حیدر کا والد شاہ محمد کا کہنا تھا کہ وہ گھڑ سواری کر کے چھوربٹ لا سے ہوتے ہوئے تین دفعہ لداخ جا چکے ہیں جہاں سے نمک خرید کر گاؤں لایا گیا۔ یہ 1947 سے پہلے کی بات ہے۔ جبکہ حیدر 1971 سے پہلے تیبے، تورتک، ٹقشی اور چولونکھا تک گئے ہیں جو بعد ازاں انڈیا کے ہاتھوں میں چلے گئے۔

غلام حسین پھر شاہ محمد اور ان کے بعد علی اور حیدر ایک تسلسل ہے جو اس سنگ تراشی کے ہنر کو ایک سے دوسرے میں منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب تو علی کے بیٹے موسیٰ اور حیدر کے بیٹے روزی نے بھی اس وراثت کو سینے سے لگایا اور یوں چوتھی پشت تیشہ فرہاد اٹھائے کوڑو پتھر کی چٹانوں سے نبرد آزما ہیں۔

یوں تو کوڑو پتھر سے کئی طرح کی اشیا بنائی جا رہی ہیں جو آج کل زیادہ تک گھروں میں سجاوٹ کے لیے الماریوں یا دیواروں کی طاقچوں میں رکھی جاتی ہیں مگر بہت پہلے صرف برتن اور شمع دان بنانے کا کام ہوتا تھا اور ضرورت بھی انہی اشیا کی تھی۔

کھانا پکانے کے لیے پتھر کا جو بیضوی ڈیزائن کا برتن بنتا ہے، وہ بلتی زبان میں ’کوات‘ کہلاتا ہے، جبکہ شنا زبان میں اسے ’بہ لوݜ‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح کوڑو کے پتھر سے لسی بنانے اور رکھنے کی صراحی بنائی جاتی ہے اور ’بجو‘ کہلاتی ہے۔اس کے علاوہ ایک مقامی ڈش پکانے کے لیے ’کوڑہ زنگس‘ اور سالن یا مقامی سوپ کے لیے "کرومبو" بنایا جاتا ہے۔ روشنی کے لیے دیا کی شکل کا پتھر کا چراغ جس میں خوبانی کا تیل ڈالا جاتا ہے اسے ’کومبو‘ کہتے ہیں استعمال میں رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی راجاؤں کے گھروں میں اور بڑی بڑی خانقاہوں میں بڑے ڈیزائن کے شمعدان جو پھول کی پتیوں کی شکل میں بنائے جاتے تھے انہیں چھت یا دیواروں میں آویزاں کیا جاتا تھا۔

علی اور حیدر کوڑو کا پتھر نکالنے کے لیے جن پہاڑیوں میں جاتے تھے وہ کوات سہ، تکپہ اور برق چھت پا کہلاتی ہیں۔ یہیں سے ان کے والد شاہ محمد اور دادا غلام حسین بھی پتھر کاٹ کر لاتے تھے۔ اب یہ جگہیں مشکل اور خطرناک ہو گئی ہیں لہٰذا اب کوڑو کا پتھر دریا پار دوسرے گاؤں ’پیون‘ کی ایک پہاڑی سے بڑی مشقت اٹھا کر لایا جاتا ہے۔ علی اور حیدر کے والد اور دادا بھی ان دونوں کی طرح شگر، کھرمنگ اور روندو جاتے رہتے تھے جہاں وہ پتھروں کے برتنوں کا سودا بیچتے اور آٹا، گندم، نقد رقم اور گھی وغیرہ سمیٹتے تھے۔

2008 اور 2009 کے دوران جب میں خپلو پیلس کی تجدیدی کام کے دوران آغا خان کلچرل سروس پاکستان کا حصہ تھا تو کئی بار علی اور حیدر کے پاس جانے کا اتفاق رہا۔ میرے ساتھ خپلو پیلس کی انٹیریئر ڈیزائنر شہناز اسماعیل جو انڈس ویلی سکول آف آرکیٹیکچر کراچی کی پرنسپل تھیں، ان کے علاؤہ لیڈ آرکیٹکٹ وجاہت علی، پروجیکٹ آرکیٹکٹ مبشر حسن، آرکیٹکٹ بشریٰ نبی، منیجر عباس علی خان اور صاحب جان ہمراہ تھے ہم سب علی اور حیدر سے بار بار ملے اور ان سے خپلو پیلس کے لیے کئی اشیا بنوائیں۔

اب علی تو نہیں رہے، حیدر بھی عمر رسیدہ ہو گئے ہیں مگر ان دونوں کے بیٹے موسیٰ علی اور روزی علی نے اس فن کو آگے بڑھانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چل کر نئے فرہاد بننے جا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ