صحرائے تھر سے فٹبال ورلڈ کپ تک کا سفر

خوراک کی کمی کے شکار صحرائے تھر کی دیوی میگھواڑ، جمنا بھیل چین میں منعقدہ نوجوانوں کے فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لیں گی۔

3

صحرائے تھر کی تاریخ میں پہلے بار ہے کہ کوئی بچہ کسی عالمی ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہا ہے (تھر فاؤنڈیشن)

سندھ کے صحرائے تھر کی تاریخ میں پہلی بار دو کمسن لڑکیاں دیوی میگھواڑ اور جمنا بھیل چین میں منعقدہ نوجوانوں کے فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت کرنے جا رہی ہیں۔

’گوتھیا فٹبال ورلڈ کپ‘ چین کے صوبے چنگ ڈاؤ میں 17-10 اگست تک منعقد ہو رہا ہے۔

اس سالانہ ٹورنامنٹ کا انعقاد پیشہ ورانہ فٹبال کلب بی ۔ کے ہیکن 1975 سے سویڈن کے شہر گوتھن برگ میں کرتا آیا ہے اور اس میں ہر سال 80 ممالک کی 1700 سے زائد ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور 1100 فٹبال میدانوں میں 4500 میچ ہوتے ہیں۔ ٹورنامنٹ میں ہر قومیت، نسل، جنس اور رنگ کے نوجوان حصہ لیتے ہیں۔

صحرائے تھر کی تاریخ میں پہلے بار ہے کہ کوئی بچہ کسی عالمی ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہا ہے۔

دس سالہ دیوی میگھواڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا کہ میں واقعی چین جا رہی ہوں۔ یہ ایک خواب جیسا ہے، مگر جو بھی ہے بہت زبردست ہے۔'

ضلع تھرپارکر کی تحصیل سلام کوٹ کے ایک پسماندہ گاؤں جیئندو درس کی رہائشی دیوی میگھواڑ کے گاؤں میں عموما بچیاں سکول نہیں جاتیں۔

وہ خود نو سال کی عمر تک سکول نہیں گئیں مگر پچھلے سال سماجی تنظیم ’تھر فاؤنڈیشن‘ نے وہاں سکول کھولا تو ان کے والد نے انھیں سکول بھیجا جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچیوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کی مد میں فٹبال  بھی متعارف کروائی گئی تھی۔

دس سالہ جمنا بھیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے کبھی فٹبال نامی کھیل کا نام تک نہیں سنا تھا مگر اب میں ایک بین القوامی ٹورنامنٹ میں کھیلنے جا رہی ہوں اور میری زندگی یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔‘

ابن جو تڑ گاؤں کی رہائشی جمنا دس سال عمر کے باجود پہلی جماعت کی طالبہ ہیں کیوں کہ سماجی تنظیم کے سکول کھولنے سے پہلے ان کے خاندان میں بچیوں کو پڑھانے کا تصور تک نہیں تھا، لیکن جمنا نے نہ صرف پڑھائی کی، فٹبال کھیلی بلکہ نوجوانوں کے ورلڈ کپ میں حصہ لینے بھی جا رہی ہیں۔

دیوی کے والد جھنجھو میگھواڑ کہتے ہیں: ’میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ میری بچی بیرونِ ملک سفر کرے گی اور وہ بھی فٹبال جیسا کھیل کھیلنے کے لیے، جو اس خطے میں غیر معروف کھیل ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی لڑکے یا لڑکی نے بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے لیے تھرپارکر سے باہر کا سفر کیا ہو۔‘

سندھ کا صحرائے تھر پاکستان کے پسماندہ ترین خطوں میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں کئی سالوں سے جاری شدید قحط سالی کے باعث شیرخوار بچوں کی اموات معمولی بات ہے۔

مسلسل قحط سالی کے باعث قومی اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہنے والے اس خطے کے باسیوں کے روزگار کا دارومدار بارانی زراعت اور مال مویشیوں پر ہے۔ تاہم کئی سالوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث بارانی زراعت تو دور کی بات مال مویشیوں کے چارے کا انتظام مشکل ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی لوگ بارش نہ ہونے کے باعث اپنے مویشیوں کے ساتھ سینکڑوں کلومیٹر پیدل چل کر سندھ کے ان اضلاع میں جاتے ہیں جہاں زراعت دریائے سندھ کے پانی پر ہوتی ہے۔

ضلع تھرپارکر کے شہروں میں بچے کرکٹ کھیلتے ہیں مگر دیہاتوں میں آج بھی روایتی کھیل گلی ڈنڈا، آنکھ مچولی، شیدن، پہل دوج، کنچے، پکڑم پکڑائی، کھوکھو، پینگ، لاٹو اور لڑکیوں میں خاص طور پر گڑیا، گڈے کی شادی کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

ایسے میں اس خطے میں فٹبال جیسے غیر معمولی کھیل کے عالمی ٹورنامنٹ میں شرکت معمولی بات نہیں۔

بھیل اور میگھواڑ تھر کی غریب اور بڑی ہندو برادریاں سمجھی جاتی ہیں۔ دونوں برادریوں کے کئی نوجوان بڑے عہدوں پر پہنچے ہیں مگر اب بھی دونوں برادریوں کی بڑی تعداد غریب اور تعلیم سے محروم ہے۔

دونوں لڑکیاں الگ الگ سکول میں پڑھتی ہیں۔ دیوی میگھواڑ کے سکول میں 174 اور جمنا بھیل کی سکول میں 180 طلبات ہیں۔

سماجی تنظیم نے دونوں کو حال ہی میں کراچی میں دس روزہ تربیتی کیمپ میں حصہ دلوایا جہاں انھوں نے پریکٹس میچ بھی کھیلے۔ جمنا بھیل دفاعی کھلاڑی جبکہ دیوی میگھواڑ گول کیپر ہیں۔

دیوی میگھواڑ سے جب پوچھا گیا کہ مستقبل میں پڑھ لکھ کر وہ کیا بنیں گی تو انھوں نے جواب دیا 'اچھی انسان بنوں گی' جبکہ جمنا بھیل کا خواب ہے کہ وہ پاکستان فٹبال ٹیم کا حصہ بنیں اور خواتین ورلڈ کپ کھیلیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے