بوسنیا کی خواتین فٹبالرز کو ’لیزبین‘ ہونے کے طعنے

بوسنیا میں 41 ہزار سے زائد مردوں کے مقابلے میں صرف 12 سو کے لگ بھگ خواتین مختلف کلبوں کے تحت فٹبال کھیلتی ہیں۔

امینہ کلب کا ایک تربیتی سیشن۔ (اے ایف پی)

ایک نوجوان لڑکی کے طور پر ارینا بلیسا کو اپنے خاندان سے چھپ کر فٹ بال کی تربیت لینا پڑتی تھی۔ ان کے خاندان والوں کا خیال تھا کہ وہ ایک اچھی رقاصہ یا ماڈل بن سکتی ہیں۔ 

آج یہ 24 سالہ لڑکی بوسنیا کے بہترین فٹبال کلبوں میں سے ایک کی دفاعی کھلاڑی یا ڈیفینڈر ہیں: ایک ایسی ٹیم کی رکن جو میچ تو جیت رہی ہے لیکن مداح جیتنے کی ابھی بھی ایک ایسے مردوں کے حاوی بلقان میں کوشش میں لگی ہے۔

ہمسایہ مونٹنیگرو میں پلی بڑھی ارینا کا کہنا ہے کہ ’میرے رشتہ دار سب اس کے خلاف تھے۔ صرف میرے دادا میری فٹبال سے محبت کے حامی تھے۔‘

جیسے جیسے انہوں نے اس میدان میں اپنی قابلیت منوائی تو خاندان کے باقی اراکین بھی ان کے قائل ہوتے گئے۔ لیکن انہیں امینہ کلب کی صورت میں ایک مختلف خاندان ملا۔ یہ وہ کلب ہے جو تین سال قبل جنوبی بوسنیا کے موسٹار نامی شہر میں قائم کیا گیا۔

ارینہ کلب کے بانی کے مکان میں دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ رہتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’اس کے کوچ اور صدر ہمارے والدین کی طرح ہیں اور دیگر کلب کی کھلاڑی میری بہنوں کی طرح ہیں۔‘ کلب کے بانی نیچے لیونگ روم میں سوتے ہیں تاکہ کھلاڑی اور کے بیڈ روم میں سو سکیں۔

امینہ کلب بوسنیا میں کھلاڑی خواتین کے لیے ایک چھوٹی سی سہولت ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں فٹبال کو اب بھی مردوں کا کھیل مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں فرانس میں خواتین کے ورلڈ کپ کے لیے کھیلنے والے ممالک کے مقابلے میں کھیلنے کی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بوسینا نے اس مقابلے کے لیے کوالیفائی نہیں کیا۔

بوسنیا میں 41 ہزار سے زائد مردوں کے مقابلے میں صرف 12 سو کے لگ بھگ خواتین مختلف کلبوں کے تحت فٹبال کھیلتی ہیں۔ خواتین کے 31 کلب 56 سالہ سیدا بکیرووک ٹوجاگا جیسی امینہ کلب کا آغاز کرنے والی خواتین کی وجہ سے موجود ہیں۔ اس کلب کی بانی 2016 میں ٹی وی پر عورتوں کا ایک بین الاقوامی مقابلہ دیکھ رہی تھی کہ انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اپنا ایک کلب بنائیں گی۔ انہوں نے ان مردوں کو نظر انداز کیا جو خواتین پلیرز کو ’گندی نگاہ‘ سے دیکھتے تھے اور ’لیزبین‘ پکارتے تھے۔

سیدا کی فارمیسی کے کاروبار سے کھلاڑیوں کو سوا دو سو ڈالر فی کھلاڑیوں کو ہر ماہ پاکٹ منی کے طور پر دیتی ہے۔

کوچ ذیجو جو ولیز موسٹار کے سابق کوچ اور کھلاڑی رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ان کے ملک میں لوگ اب بھی فٹبال کو مردوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔ ’والدین آج بھی اپنی بچیوں کو فٹبال سے دور رکھتے ہیں۔‘

بلقان کے بعض معروف فٹبال کھلاڑیوں نے خواتین کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن چند نے مخالفت بھی کی ہے۔ 2014 میں الجزیرہ بلقان کی ایک دستاویزی فلم میں ایک سابق اہلکار نے کہا تھا کہ مداح صرف خواتین کا میچ اس لیے دیکھنے جائیں گے کہ وہ ان کی ’ٹی شرٹ میں کچھ ابھرتا دیکھ سکیں۔‘

ایک سپورٹس کمنٹیٹر نے بھی کہا تھا کہ عورتیں مرد بنتی جا رہی ہیں۔

امینہ کی 19 سالہ کھلاڑی منیلا گاکانیکہ کہتی ہیں کہ حالات اب تبدیل ہو رہے ہیں۔ ’آغاز میں ہم پر سب نے تنقید کی۔ لیکن جب انہوں نے آکر ہمارا ایک میچ دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ مردوں سے بہتر ہے۔‘      

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال