اے اللہ عید پہ پردیس کا غم نصیب فرما!

دیس میں رہ کر اپنی زندگی پہ لعنت بھیجنے سے کہیں بہتر ہے پردیس میں رہ کر پنکج اداس کی غزل سنی جائیں ’چھٹی آئی ہے وطن سے چھٹی آئی ہے۔‘

میری لینڈ میں 19 اگست، 2012 کو مسلمان عید الفطر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپس میں گلے مل رہے ہیں (اے ایف پی)

عزیز ہم وطنو!

خیر خیریت کے تکلُف سے پہلے، یہ گھڑی گھڑی ہمیں پاکستان واپس آنے کے طعنے دینا بند کرو۔ اولادِ آدم لاکھ سہی جنت سے نکلنے کی غلطی ہم نہیں دہرائیں گے۔

سپیشل نوٹ برائے پاکستانی شاعر حضرات، اپنے دیوان بیچنے کے لیے ہم پردیسیوں کے جذبات کے ساتھ جو کھلواڑ تم لوگوں نے کیا اس کا حساب تمھیں الگ سے دینا ہوگا۔

تم لوگوں نے پردیس کے نام پہ ایسے ایسے نوحے لکھے کہ کبھی تو بے وجہ ہمیں خود پہ اور اپنی خوش حالی پہ ترس آنے لگتا ہے۔

پچھلے 15 برسوں میں کبھی خیال نہیں آیا کہ وطن کی گلیاں ہمارے بغیر سونی پڑی ہیں۔

ہر چکر میں شہر کی سڑکیں پہلے سے زیادہ گنجان اور گاؤں دیہاتوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں نظر آتی ہیں۔

ہم پردیسی پاکستانیوں کے بارے میں منی ٹرانسفر کمپنیوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں، خیراتی اداروں اور تحریک انصاف والوں سے زیادہ کوئی نہیں سوچتا۔

ہم اوورسیز کے لیے جتنی پلاننگ یہ کرتے ہیں اس سے اپنا آپ خواہ مخواہ ایلیٹ کلاس جیسا محسوس ہوتا ہے اور اس احساس کی قیمت ہم بخوشی ادا کرتے ہیں۔

اور یہ اپنے گھر سے دور رہنے کا غم کیا ہوتا؟ یہاں یورپ میں چند برس کی معمولی نوکری نے مجھے اس قابل بنا دیا ہے کہ میں اپنا گھر بنا سکوں۔ اور وہ جو پاکستان میں کوٹھی کھڑی ہے، اوورسیز کے چار پلاٹ ہیں، وہ بھی تو اسی کمائی کا نتیجہ ہیں۔ گھر والدین سے ہوتا ہے، جنہیں میں یہاں کب کا بلا چکا۔

فیس بک پہ ایک بھائی کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو کر لکھتے ہیں ’کبھی کبھی پردیسیوں کو دل چیر دینے والی اک ہوک سی اٹھتی ہوگی کہ ابھی دروازہ  کھلے گا اور اپنوں کی شکلیں نظر آئیں گی۔‘

 بھائی مرے! اگر پیٹ میں بھوک پل رہی ہو تو یہی اپنوں کی شکلیں ڈراؤنی لگنے لگتی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے میرے ایم بی اے دوست نے ملتان سے کال کرکے 50 ہزار روپے ادھار مانگے تاکہ انہی اپنوں کو عید پہ اپنی شکل دکھا سکے۔

پردیس کی بے مزہ بے رونق عید اور پردیسی بُلبل کی تنہائی کے موضوع کو تو ایسا کیش کیا ہے کہ بس۔ مانتا ہوں عید کے دن خلیجی ممالک میں مزدوری کرنے والے چھڑے لڑکے اور شادی شدہ مرد مشکل عیدیں گزارتے ہیں۔

یہ ہوسٹل نما کمروں میں بیٹھ کر گھر والوں کو واٹس ایپ کال کرتے ہیں اور شام میں کچھ اچھا پکا کر کھا لیتے ہیں۔

لیکن یہ بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دبئی، دوحہ یا دمام  کے اس تنہا پردیسی کا دل مطمئن ضرور ہوگا کہ اس کے بچے عید پہ ایک جوڑی نئی چپل کو نہیں ترسے۔ بیگم دور سہی مگر فون پہ راشن ختم ہونے کا طعنہ نہیں دیتی۔

یہاں رہنے والوں سے دنیا راضی تو اللہ بھی راضی، برسوں کمیٹی ڈال کر حج عمرے اور زیارات کے لیے پیسے جمع نہیں کرنے پڑتے، ہمارا لال پاسپورٹ ہمیں ویزہ لینے کی جھنجھٹ سے بچاتا ہے۔

مسافر یورپ کا ہو تو سفری کمپنیاں انتظامات بھی اسی معیار کے مطابق کرتی ہیں۔

جیب میں چاہے جتنے پیسے ہوں لیکن ہمارے بیچارے پاکستانی پاسپورٹ پہ آدھی سے زیادہ  دنیا کے دروازے بند ہیں۔

ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ پردیسیوں کو عید کے پکوان، عید کے مہمان، عید کی نماز اور عید کے اہتمام کی یاد بہت غم زدہ کر دیتی ہے۔

امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور پورے یورپ میں ایشین سٹورز پاکستانی پکوانوں کی تمام ضروری اشیا سے لدے ہوئے ہیں۔

یہاں کی کافر حکومتیں مرغی، بکرے اور دنبے کے حلال گوشت، دودھ دہی، پھل فروٹ کی فراوانی کو یقینی بناتی ہیں۔ چرونجی سے لے کر کپور کچری تک یہاں سب ملتا ہے۔

دکانوں میں نعمتوں سے آراستہ شیلف ہماری حسرتوں بھری آہیں نہیں سنتے۔ الحمدللہ جیب میں اتنے یورو ہیں جو جی چاہے خرید لیتے ہیں۔

دہلی کی نہاری، لاہور کی مرغ چنے، کراچی کی بریانی اور پشاور کا چرسی تکہ یہاں جب دل کرے کھا لیتے ہیں۔ مزہ نہ آئے تو پاکستان ہوآتے ہیں۔

یہاں یورپ کے ہر شہر میں مرکزی جامع مسجد ہے وہاں ہم عید بھی ملتے ہیں اور مسلم برادری میں دعوتیں بھی چلتی ہیں۔

رہ گئے رشتے دار تو انہیں ہم پاکستان جا کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کیسے برادریوں میں آپا دھاپی اور خونی رشتوں میں کٹا چھنی چل رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ ادیب جو کیپیٹل ازم کے خلاف آپ ہی آپ مجاہد بنے ہیں وہ ہم پردیسیوں کو لتاڑتے ہیں کہ اے نادان پردیسی! تری جیب بھری اور خالی عید؟ کیا فائدہ ایسے پیسے کا جو تو عید بھی گھر والوں کے ساتھ نہ منا سکے۔

میں ان فلاسفروں سے پوچھنا چاہتا ہوں مغربی سرمائے سے اتنی شدید نفرت ہے تو پھر کیوں ہر سال لاکھوں پاکستانی ملک چھوڑ کر نادان پردیسی بننے چلے آتے ہیں۔

ساون میں جس مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کی خاطر گیت لکھے گئے تھے، آج اسی ساون کے موسم میں دو بوند برسے تو گلگت تا کراچی لوگ سیلابی صورت حال کا سوچ کر ڈر جاتے ہیں۔

’ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند‘، اگرچہ شاعر راہی معصوم رضا نے بڑی معصومیت سے دیس کے چاند کو یاد فرمایا،  لیکن رومانویت سے پرے حقیقت یہ ہے کہ دیس کے لوگ اُس چاند کی جگہ گول روٹی دیکھتے ہیں۔

ایک یوٹیوبر نے رمضان میں دعا مانگی یا اللہ عید پہ پردیس کا غم نصیب فرما کیوں کہ وہ یوٹیوبر دنیا گھوم کر اور دنیا بھر میں رہنے والی پاکستانی برادری سے مل کر جان چکا ہے کہ دیس میں رہ کر اپنی زندگی پہ لعنت بھیجنے سے کہیں بہتر ہے پردیس میں رہ کر پنکج اداس کی غزل سنی جائے ’چھٹی آئی ہے وطن سے چھٹی آئی ہے۔‘

وسلام !

فقط

آپ کا اوورسیز بھائی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ