کراچی کے لاپتہ صحافی منیب احمد ساحل کہاں ہیں؟

34 سالہ منیب احمد ساحل اردو روزنامے ’پیارا وطن‘ کے ایڈیٹر ہیں، جنہیں دس اگست کی صبح ساڑھے چار بجے کچھ باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں واقع ان کے گھر سے ساتھ لے گئے، اہلیہ

34 سالہ منیب احمد ساحل اردو روزنامے ’پیارا وطن‘ کے ایڈیٹر ہیں (تصویر: اصباح منیب )

کراچی سے ایک اردو روزنامے ’پیارا وطن‘ کے ایڈیٹر منیب احمد ساحل لاپتہ ہوگئے ہیں۔

34 سالہ منیب کی اہلیہ اصباح منیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ہفتہ دس اگست کی صبح ساڑھے چار بجے کچھ باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں واقع ان کے گھر آئے اور ان کے شوہر منیب احمد ساحل کو اٹھا کر لے گئے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’کچھ اہلکار سادہ کپڑوں میں تھے اور دو، تین اہلکار رینجرز کی وردی میں تھے۔ ان کے ساتھ ایک میجر لیول کا افسر بھی تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ میرے شوہر کو کیوں لے کر جارہے ہیں تو رینجرز کی وردی والے افسر نے مجھے کہا کہ اب تم ان کی بازیابی کے لیے پٹیشن دائر کرنا اور پھر وہ میرے شوہر کو اپنے ساتھ لے گئے۔ تب سے ان کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔‘

روزنامہ ’پیارا وطن‘ کراچی، اسلام آباد، سرگودھا اور خوشاب سے بیک وقت شائع ہوتا ہے جبکہ اخبار کی ویب سائٹ کے مطابق یہ اخبار 1989 سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔

اس اخبار کے مطالعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں سیاست، حکومت، کھیل اور دیگر خبروں کے ساتھ کراچی کی لینڈ مافیا کے خلاف خبریں نمایاں انداز میں شائع کی جاتی ہیں۔

جب اصباح منیب سے پوچھا گیا کہ ان کے شوہر کو اس طرح کیوں اٹھایا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’منیب احمد ساحل کے اخبار کے دو کارکنوں ڈیسک پر کام کرنے والے قیصر اور رپورٹر سلیم میمن کو کچھ اہلکار 15 جولائی کو اٹھا کر لے گئے تھے اور ان کے شوہر نے اپنے کارکنوں کی بازیابی کے لیے عدالت میں پٹیشن دائر کی ہوئی تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’اس پٹیشن والے معاملے پر ایک صحافی شکیل راجپوت کئی دنوں سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر میرے شوہر کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اس کے علاوہ میرے شوہر نے مجھے بتایا تھا کہ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے انہیں پانچ اگست کو فون پر دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں جعلی پولیس مقابلے میں مروادیں گے، جس کے بعد میرے شوہر نے اے آئی جی پولیس سے ملاقات کرکے انہیں شکایت کی۔ اے آئی جی نے ان کی حفاظت کے لیے گارڈ دینے کی بھی پیشکش کی جو میرے شوہر نے قبول نہیں کی۔ اس معاملے پر ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جو ابھی تفتیش ہی کر رہی تھی کہ میرے شوہر کو رینجرز والے اٹھا کر لے گئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم رابطہ کرنے پر سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر عرفان بہادر نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی اور کہا: ’یہ ایک عجیب سی بات ہے۔ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کوئی جرائم پیشہ شخص نہیں ہیں کہ میں ایسا کروں۔ یہ بالکل غلط الزام ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی۔ میرے ضلع میں 200 سے زائد صحافی ہیں۔ کبھی کسی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی۔ یہ ان کا اپنا کوئی مسئلہ ہوگا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’صحافی منیب احمد ساحل کے خلاف ضلع ملیر میں کچھ لوگوں نے بھتہ لینے کے مقدمات درج کروائے ہیں۔‘

ایس ایس پی عرفان بہادر نے مزید دعویٰ کیا: ’صحافی منیب احمد ساحل کے لاپتہ ہونے کا تو مجھے کوئی علم نہیں۔ مگر ان کے خلاف درج مقدمات کی بنیاد پر رینجرز نے ان کو گرفتار کرکے سہراب گوٹھ پولیس کے حوالے کیا ہے اور وہ اس وقت سہراب گوٹھ پولیس کی تحویل میں ہیں۔‘

تاہم جب اس حوالے سے سہراب گوٹھ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او اعجاز راجپر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے صحافی منیب احمد ساحل کو گرفتار کرنے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز نے اس نام کے کسی صحافی کو سہراب گوٹھ پولیس کے حوالے نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’میں عید کے باعث اس وقت تھانے سے باہر ہوں۔ میری غیر موجودگی میں اگر ان کو ہماری پولیس کے حوالے کیا گیا ہے تو اس کا مجھے علم نہیں۔ میں تھانے پہنچ کر ہی بتا سکتا ہوں کہ ان کو ہمارے تھانے لایا گیا یا نہیں مگر اب تک وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔‘

جب سہراب گوٹھ تھانے میں رابطہ کیا گیا تو ڈیوٹی پر موجود ہیڈ محرر طاہر نے بتایا کہ رینجرز کسی بھی فرد کو ان کے تھانے پر نہیں لائی اور اس نام کا کوئی بھی صحافی ان کی تحویل میں نہیں ہے۔

دوسری جانب اصباح منیب نے اپنے شوہر منیب احمد ساحل کو جلد سے جلد رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ان کے شوہر پر کوئی الزام ہے تو انہیں قانونی طور پر گرفتار کیا جائے اور ان کو ظاہر کیا جائے تاکہ ہم اپنا قانونی حق استعمال کریں اور قانونی جنگ لڑیں۔ اس طرح لاپتہ کرنا کون سے قانون کے تحت ہے؟‘

رواں سال کے دوران کراچی میں روزنامہ جنگ کے صحافی مطلوب موسوی، نجی نیوز چینل اب تک کے کیمرا مین سید علی مبشر نقوی اور نجی نیوز ایجنسی پی پی آئی کے صحافی شفقت سومرو کے بیٹے صفات سومرو بھی ’پراسرار طور پر لاپتہ‘ ہوچکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان