چین کے لیے افغانستان کے لیتھیم ذخائر اہم کیوں ہیں؟

حال ہی میں ایک چینی کمپنی نے افغان وزارت پیٹرولیم و معدنیات کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران لیتھیم ذخائر میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔

22 جنوری 2022 کی اس تصویر میں افغان صوبہ قندھار کے نواح میں میانکو ڈیم کی تعمیراتی سائٹ پر افغان طالبان کا ایک رکن کھڑا ہے (اے ایف پی)

افغانستان کی معدنیات پر دہائیوں سے بین الاقوامی قوتوں کی نظریں مرکوز ہیں اور اب افغانستان کے لیتھیم ذخائر میں چین نے گذشتہ دنوں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔

کابل میں چینی کمپنی گوچین کے نمائندوں نے 13 اپریل کو افغان وزارت پیٹرولیم و معدنیات کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران سرمایہ کاری کی پیشکش کی، جس سے چین کے مطابق ایک لاکھ 20 ہزار تک افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔

کابل کی نگران وزارت پیٹرولیم کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چین نے لیتھیم نکالنے کی مد میں 10 ارب ڈالر کی پیشکش کی ہے جس سے لاکھوں افراد برسر روزگار ہوں گے۔

پریس ریلیز کے مطابق: ’وزارت پیٹرولیم کے وفد کی جانب سے چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور افغانستان کی حکومت کو پتہ ہے کہ افغانستان کے لیتھیم کے ذخائر افغانستان اور پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہیں۔‘

مزید کہا گیا: ’وزارت پیٹرولیم چین کی پیشکش کو دیکھے گی اور معدنات کے قوانین کے مطابق لیتھیم ذخائر نکالنے کا ٹھیکہ دیا جائے گا۔‘

تاہم ابھی تک طالبان حکومت کی جانب سے چین کی پیشکش قبول نہیں کی گی ہے۔ گذشتہ روز کابل کی وزارت پیٹرولیم و معدنیات کے ترجمان ہمایون افغان نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کابل یہ ٹھیکہ چین کو ہی دے۔

ہمایوں افغان کا کہنا تھا: ’ہمیں اس ٹھیکے کو دینے میں کوئی جلدی نہیں ہے اور جلد بازی میں ایسا کوئی قدم بھی نہیں اٹھائیں گے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ یہ ٹھیکہ چین کو ہی دے دیا جائے گا۔‘

افغانستان کی جانب سے چین کی پیشکش کو قبول کرنے کے پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ چین افغانستان کے لیتھیم ذخائر میں سرمایہ کاری کر کے افغانستان کی دیگر معدنیات تک بھی رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

لیتھیم کیا ہے؟

برطانیہ کے ادارے رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کے مطابق لیتھیم چاندی کے رنگ کی ایک نرم دھات ہے۔ یہ یونانی لفظ ’Lithos‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی پتھر کے ہیں۔

یہ دھات 1817 میں جوہان آگسٹ نے دریافت کی تھی اور رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کے مطابق اس کا زیادہ استعمال موبائل فون، لیپ ٹاپ، کیمروں اور الیکٹرک گاڑیوں کی ری چارج ایبل بیٹریوں میں ہوتا ہے۔

لیتھیم کا استعمال بعض بغیر ری چارج ایبل بیٹریوں میں بھی کیا جاتا ہے، جیسے بچوں کے کھلونے جس میں بغیر ری چارج کے بیٹریوں کا استعمال ہوتا ہے جبکہ لیتھیم کو ایلومینیم اور میگزیم کے ساتھ ملا کر بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والی پلیٹ کی کوٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا میں لیتھیم کے کتنے ذخائر ہیں؟

امریکی جیولوجیکل سروے کی 2023 کے لیتھیم ذخائر کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق دنیا میں لیتھیم کے 98 ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔

ان ذخائر میں سب سے زیادہ آسٹریلیا، برازیل، ارجنٹینا، چلی، چین، پرتگال اور امریکہ میں واقع ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 98 ملین ٹن کے ذخائر میں سے 21 ملین ٹن کے ذخائر بولیویا، 20 ملین ٹن ارجنٹینا، چلی میں 11 ملین ٹن، آسٹریلیا میں تقریباً آٹھ ملین ٹن، چین میں تقریباً سات ملین ٹن، جرمنی میں تقریباً تین ملین اور کانگو  اور کینیڈا میں تین تین ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔

اسی طرح سپین، زمبابوے، روس، میکسیکو، برازیل، پرتگال، آسٹریا اور قازقستان سمیت کچھ دیگر ممالک میں ایک ملین ٹن یا اس سے کم لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔

افغانستان کے لیتھیم ذخائر کے حوالے سے باقاعدہ اعدادو وشمار تو موجود نہیں ہیں، لیکن امریکی جیولوجیکل سروے کی 2010 کی ایک رپورٹ میں درج ہے کہ افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں اور اس رپورٹ میں افغانستان کو ’لیتھیم کا سعودی عرب‘ کہا گیا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اندازاً ایک کھرب ڈالر کی معدنیات موجود ہیں، جنہیں نکالنے کے لیے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سمیت کئی سال لگ سکتے ہیں۔

مارگلہ نامی جریدے میں 2014 میں شائع ڈاکٹر راجا محمد خان کے تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ چین نے افغانستان کے معدنیات سیکٹر میں سرمایہ کاری تو کی ہے، لیکن ابھی تک چین کے سٹریٹجک مقاصد واضح نہیں ہیں۔

اسی مقالے میں درج ہے کہ افغانستان میں لیتھیم کے علاوہ دیگر معدنیات بھی موجود ہیں، جس میں اندازاً  421 ارب ڈالر کے آئرن اور تانبے کے تقریباً 273 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔

چین لیتھیم کے استعمال میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ فرنٹیئر ان نامی جریدے میں شائع ایک مقالے کے مطابق چین نیو انرجی کی گاڑیاں بنانے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اسی مقالے میں درج ہے کہ 2020 میں نیو انرجی یا الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے چین میں 1367 ملین یونٹس فروخت کیے گئے تھے، جو دنیا بھر میں گاڑیوں کی فروخت کا 42 فیصد بنتا ہے۔

لیتھیم کن اشیا میں استعمال ہوتا ہے؟

امریکی جیولوجیکل سروے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 80 فیصد لیتھیم کا استعمال بیٹریوں میں کیا جاتا ہے اور اس کے بعد لیتھیم کا سات فیصد سرامک اور شیشے کی تیاری میں کیا جاتا ہے جبکہ باقی دیگر مختلف چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لیتھیم کی پیدوار بڑھتی جا رہی ہے۔ 2021 میں ایک لاکھ سات ہزار ٹن کے مقابلے میں 2022 میں لیتھیم کی پیداوار ایک لاکھ 30 ہزار ٹن تک پہنچ گئی تھی، جو 21 فیصد اضافہ ہے اور اس کی بڑی وجہ لیتھیم بیٹریوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہے۔

اسی طرح پیدوار کے علاوہ استعمال میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں دنیا بھر میں 95 ہزار ٹن لیتھیم استعمال ہوا تھا جبکہ 2022 میں بڑھ کر ایک لاکھ 34 ہزار تک پہنچ گیا ہے، جو تقریباً 41 فیصد اضافہ ہے۔

افغانستان کے لیتھیم ذخائر چین کے لیے اہم کیوں ہیں؟

ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین کے لیے افغانسان سے لیتھیم لے کر جانا آسان ہے کیوں کہ افغان صوبے بدخشاں کے ساتھ چینی صوبے سنکیانگ کی سرحد ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان کے لیتھیم ذخائر میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ایڈم روبرٹ معیشت کی خبروں کے لیے معتبر برطانوی اخبار ’دی اکانومسٹ‘ کے ڈیجیٹل ایڈیٹر ہیں اور جنوبی ایشیا سمیت افغانستان کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔

ایڈم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر لیتھیم کے ذخائر دریافت کرنے کا عمل جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2040 تک لیتھیم، تانبے، کوبالٹ اور نکل کی پیدوار 13 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’دنیا کی آدھی لیتھیم کی مقدار لاطینی امریکہ میں موجود ہے، لیکن امریکہ نے وہاں نجی معدنیات کی کمپنیوں کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے، تو وہاں پر لیتھیم کی پیدوار اور مائننگ ابھی تک واضح نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین کی افغانستان میں دلچسپی کے حوالے سے روبرٹ نے بتایا کہ ’دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ میں اضافے سے لیتھیم کا استعمال بڑھ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے لیتھیم میں چین نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔‘

افغانستان کی لیتھیم میں امریکہ کی کم دلچسپی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امریکی معدنیات کمپنیوں کے لیے افغانستان میں کام کرنا آسان نہیں ہے جہاں پر طالبان کی حکومت ہے۔ امریکہ کے لیے یہ گھاٹے کا سودہ ہے کہ وہ افغانستان سے لیتھیم نکال کر امریکہ منتقل کرے۔‘

بقول روبرٹ: ’امریکہ کے لیے لاطینی امریکہ میں موجود لیتھیم کو نکالنا آسان ہے اور وہ اپنے ہی ذخائر کو استعمال کرے۔‘

مائکل کوگلمین امریکہ کے غیر سرکاری تحقیقی ادارے دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر ہیں اور جنوبی ایشیا کے معلات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

مائکل نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لیتھیم دنیا میں اب نیا سونا بن رہا ہے اور دنیا کے مضبوط ممالک اسے حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہی کوششوں میں چین کی نظریں افغانستان کے لیتھیم ذخائر پر ہیں لیکن بہت عرصے سے چین افغانستان میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بہت احتیاط سے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

بقول مائیکل: ’امن عامہ کی خراب صورت حال کے باوجود چین کی لیتھیم میں سرمایہ کاری کی پیشکش سے لگ رہا ہے کہ لیتھیم چین کے لیے کتنا اہم ہے۔‘

مائیکل سے جب پوچھا گیا کہ چین کی سرمایہ کاری کی پیشکش اور اگر طالبان اسے قبول کرتے ہیں، تو اس کا امریکہ اور طالبان کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا: ’مجھے نہیں لگتا کہ اس پیشکش کا طالبان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر کوئی بڑا اثر پڑے گا۔‘

مائیکل نے بتایا، ’امریکہ کا طالبان کے ساتھ تعلقات کا انحصار دیگر مقامی مسائل پر ہے جس میں خواتین کی تعلیم پر پابندی، خواتین کی ملازمت پر پابندی اور القاعدہ کے خلاف کارروائی نہ کرنا شامل ہے۔‘

اسی طرح مائیکل کے مطابق چین کی جانب سے لیتھیم میں سرمایہ کاری درکنار، چین ہمیشہ طالبان کے ساتھ اچھے بزنس میں نہیں رہے ہیں اور جب تک افغانستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے معاملے کو حل نہیں کیا جائے گا، تو طالبان اور چین کے مابین کسی بڑے پیمانے پر کمرشل تعلقات نہیں ہو سکتے جس سے امریکہ ناراض ہو سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا