چین طالبان کے وعدوں پر اعتبار نہ کرے: افغان سفیر

افغان طالبان نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے یا افغان سرزمین کو چین مخالف طاقتوں کو استعمال کی اجازت نہ دینے کا عہد کیا تھا، لیکن چین میں تعینات افغان سفیر جاوید احمد قائم نے طالبان کے وعدوں کو مسترد کر دیا ہے۔

چین کی جانب سے افغان طالبان کے وفد کی میزبانی کے ایک ہفتے بعد بیجنگ میں تعینات افغانستان کے سفیر جاوید احمد قائم نے خبردار کیا ہے کہ سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں کو پناہ نہ دینے کے طالبان کے وعدے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا کے دوران طالبان کے ملک کے وسیع حصے پر قابض ہونے کے بعد خدشہ ہے کہ خطے میں مزید عدم استحکام سے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں خلل پڑے گا اور چین کے مغربی خطے سنکیانگ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

اسی تناظر میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے گذشتہ ہفتے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے شمالی شہر تیانجن میں ملاقات کے بعد طالبان کے ایک وفد کی اسی مقام پر میزبانی کی تھی۔

اس ملاقات میں طالبان نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے یا افغان سرزمین کو چین مخالف طاقتوں کو استعمال کی اجازت نہ دینے کا عہد کیا تھا۔

لیکن چین میں تعینات افغان سفیر جاوید احمد قائم نے طالبان کے وعدوں کو مسترد کر دیا ہے۔

افغان سفیر نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’مجھے نہیں لگتا کہ چین بھی ان پر یقین کرتا ہے۔ طالبان صرف علاقائی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسے وعدے کر رہے ہیں۔‘

ماضی میں امریکہ اور سوویت یونین کی پالیسیوں کے برخلاف چین غیرملکی مداخلت کے اپنے اصول کے مطابق ’افغان لیڈ اینڈ افغان اونڈ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جاوید احمد نے کہا: ’چین کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ (افغان تنازع میں) ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘

اقوام متحدہ نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ القاعدہ سے وابستہ عسکری گروہ ’ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘ (ای ٹی آئی ایم)، جس کے بارے میں چین کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ میں ایک علیحدہ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں سمیت مختلف علاقوں میں سرگرم ہے۔

نومبر 2019 سے چین میں سفیر کی حیثت سے خدمات انجام دینے والے 41 سالہ جاوید احمد نے شک ظاہر کیا کہ طالبان سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ان کا ایک ہی نظریہ ہے۔ آپ ایک جیسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین نے ہوشیاری سے طالبان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ بھی اپنے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ ماہ طالبان وفد کے دورے سے پہلے بھی یہ گروپ 2019 میں ایسے ہی ایک دورے پر چین گیا تھا۔

روایتی پگڑیوں اور لباس میں ملبوس طالبان کے عہدیداروں کا چین میں خیر مقدم کرتے ہوئے وانگ یی نے انہیں ایک ’اہم عسکری اور سیاسی قوت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

پیکنگ یونیورسٹی میں سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے لیکچرر یانگ چوہوئی نے کہا: ’جیسے جیسے طالبان آگے بڑھتے جا رہے ہیں، چین ان سے رابطہ برقرار رکھنا چاہے گا اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں طالبان چین کو دشمن کی نظر سے نہ دیکھیں۔‘

لیکن افغان سفیر جاوید احمد نے کہا کہ وہ اس بات کو ترجیح دیں گے کہ چین مکمل طور پر افغان حکومت کے پیچھے کھڑا ہو۔

تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بیجنگ طالبان کے ساتھ اپنے معاملات کے بارے میں شفاف ہے۔ طالبان کو دعوت دینے سے پہلے چین نے کابل حکومت کو آگاہ اور اعتماد میں لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں چینی ارادوں پر یقین ہے۔‘

جاوید احمد نے کہا کہ افغان حکومت نے چین سے اپنی فوج بھیجنے کے لیے نہیں کہا لیکن بیجنگ دوسرے طریقوں سے افغان حکومت کی مدد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

افغان سفیر نے مزید کہا کہ چین کابل کی جانب سے طالبان کو پیغامات پہنچانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں جنگ بندی کے لیے حکومتی اپیل اور ایک جامع سیاسی فریم ورک کی اپیل کے لیے یہ چینل استعمال ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ چین تجارت کو بڑھانے اور زعفران جیسی مزید افغان مصنوعات خرید کر افغانستان کی مدد کر سکتا ہے۔

بقول جاوید احمد: ’جب تک یہ مدد فراہم کی جاتی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ چین کو اپنے فوجی بھیجنے کی ضرورت ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا