طالبان اور افغان فوج میں طاقت کا توازن کیا ہے؟

سال 2001 میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد امریکہ نے افغان فوج کو پیروں پر کھڑا کرنے اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔

امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل نے گذشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اپریل کے آخر تک افغان نیشنل سکیورٹی  فورسز کی مجموعی تعداد تین لاکھ سات ہزار سے زیادہ تھی( اے ایف پی فائل)

غیر ملکی فوج کا افغانستان سے حتمی انخلا شروع ہونے کے بعد سے طالبان دو مہینوں میں تیزی سے حملے کر کے اس وقت افغانستان کے تقریباً آدھے اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ فوجی فتح کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

اس معاملے میں انہوں نے ان افغان فورسز کی صلاحیت اور وسائل کی جانب اشارہ کیا جنہوں ابھی تک بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔

افغان فوج اور طالبان کی طاقت کا موازنہ

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل (ایس آئی جی اے آر) نے گذشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ اپریل کے آخر تک افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی مجموعی تعداد تین لاکھ سات ہزار سے زیادہ تھی ۔ ان فورسز میں فوج، سپیشل فورسز، فضائیہ، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔

 فوجی تھنک ٹینک سی این اے کے جوناتھن شروڈن مطابق کسی بھی مخصوص دن لڑائی کے لیے دستیاب فورسز کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب طالبان کی درست طاقت کے بارے میں مکمل معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نگرانوں نے گذشتہ سال کہا تھا کہ طالبان گروپ میں 55 ہزار سے 85 ہزار جنگجو شامل ہیں۔

فریقین کے مالی وسائل؟

دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک افغانستان کے لیے غیر ملکی امداد انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکی کانگریس کی تحقیقی سروس کے مطابق افغان فوج کے لیے سالانہ پانچ سے چھ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ عام طور پر واشنگٹن نے اس رقم کا تقریباً 75 فیصد فراہم کیا ہے اور امداد جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔

ادھر طالبان کے مالی وسائل غیر واضح ہیں۔ اقوام متحدہ کے مانیٹرز کے مطابق وہ سالانہ تقریبا 30 کروڑ سے ڈیڑھ ارب ڈالرز تک مالی وسائل اکٹھے کرتے ہیں۔ وہ افغانستان میں منشیات کی بڑی صنعت، کاروباری شخصیات سے بھتہ وصول کر کے، اور ان علاقوں میں ٹیکس عائد کر کے فنڈز جمع کرتے ہیں جہاں ان کا کنٹرول ہے۔

مانیٹرز کے بقول: دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ طالبان بھرتیوں، فنڈنگ، اسلحے اور گولہ بارود کےمعاملے میں تگ دو میں مصروف نہیں ہیں۔‘ واشنگٹن اور کابل کا الزام ہے کہ پاکستان، ایران اور روس طالبان کو وسائل اور مشاورت فراہم کر رہے ہیں لیکن تینوں ملک اس سے انکار کرتے ہیں۔

دستیاب ہتھیاروں کا موازنہ

سال 2001 میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد امریکہ نے افغان فوج کو پیروں پر کھڑا کرنے اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ افغان فورسز کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے طالبان پر برتری حاصل ہے۔ وہ مغربی ساختہ ہتھیار استعمال کرتی ہیں جن میں جدید خود کار رائفلیں، تاریکی میں دیکھنے کے قابل بنانے والے عینک، بکتر بند گاڑیاں، توپیں اور نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے چھوٹے ڈرون شامل ہیں۔

امریکی انسپکٹر جنرل کے مطابق افغان فورسز کے پاس کچھ ایسا بھی ہے جس کا مقابلہ طالبان نہیں کر سکتے اوروہ ہے فضائی طاقت۔ افغان فوج کے پاس 167 طیارے ہیں۔ ان میں جنگی ہیلی کاپٹرزبھی شامل ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کے پاس زیادہ استعمال شدہ چھوٹے اور ہلکے ہتھیار ہیں جن کی دہائیوں سے جنگ زدہ افغانستان میں بہتات ہے۔ ان ہتھیاروں میں سوویت ساخت کی اے کے 47 اسالٹ رائفلز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان علاقائی بلیک مارکیٹ سے بھی ہتھیار حاصل کرتے ہیں۔

طالبان امور کےماہر انتونیوگیئستوزی نے 2019 میں لکھی گئی اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ طالبان سنائپر رائفلز اور مشین گنوں کے علاوہ عکسریت پسندوں راکٹ کے ذریعے پھینکے جانے والے دستی بم، مارٹر گولے اور دوسرے چھوٹے راکٹ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مزید برآں وہ بعض طیارہ اور ٹینک شکن ہتھیار استعمال کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خود کش بمبار اور دیسی ساختہ بم ان مہلک ترین ہتھیاروں میں شامل ہیں جو طالبان نے افغان اور غیر ملکی فوجوں کے خلاف استعمال کیے۔

انہوں نے مغربی ساختہ ہتھیاروں اور آلات پر بھی قبضہ کر کے انہیں استعمال کیا ہے۔ یہ سامان افغان فوج کو دیا گیا تھا۔

افغان فورسز نے برسوں تک اپنے اعتماد کو آزمایا ہے۔ ان کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جبکہ انہوں نے بدعنوانی، فوجیوں کے بھگوڑا ہونے کو بھی دیکھا اور اب انہیں غیر ملکی فوجوں کی واپسی اور امریکہ کی فضائی معاونت کے ختم ہونے کا سامنا ہے۔ افغان فوج کا حوصلہ پست ہونے کی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور قیادت کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔

دوسری طرف تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں داخلی اختلافات کے باوجود طالبان نے زیادہ اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے اسباب کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے علاقائی سطح پر پائے جانے والے جوش اور مادی فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا