افغانستان میں لڑائی: صوبہ تخار میں دس ہزار خاندان بے گھر

سکول میں بنائے گئے عارضی کیمپ میں موجود ایک عمر رسیدہ شخص نے بتایا: ’جنگ کی وجہ سے ہم پر بہت مشکلات آن پڑی ہیں۔ طالبان جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان جنگ کی وجہ سے ہم اپنا گھر ‘

افغانستان میں جوں جوں طالبان اور سرکاری فورسز کے درمیان نئے محاذ کھل رہے ہیں، اندرون ملک نقل مکانی بڑھ رہی ہے اور نہتے شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے پناہ گاہوں کا رخ کر رہے ہیں۔

صوبہ تخار میں ڈائریکٹر مہاجرین اور آبادکاری یاسین لبیب نے بتایا: ’ہم نے دس ہزار خاندانوں کا اندراج کیا ہے، جو صوبہ تخار کے 16 اضلاع سے بے گھر ہوئے ہیں۔  ان میں قندوز اور تالقان کے رہائشی بھی موجود ہیں۔‘

یاسین لبیب نے مزید بتایا: 'ہم نے 22 سو خاندانوں کی جانچ پڑتال مکمل کرتے ہوئے ان کی رہائش کے لیے دو مقامی سکولوں میں عارضی بندوبست کرلیا ہے۔ جب تک غیر سرکاری تنظیمیں اپنا سروے مکمل کرتی ہیں، ہم بے گھر افراد کو 72 گھنٹوں میں دو مرتبہ پکا ہوا کھانا مہیا کر رہے ہیں۔

اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والی ایک خاتون نے کہا: ’حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو تخار کے لوگوں کی طرف توجہ دینی چاہیے جو بہت مشکل میں ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لوگوں نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔ اپنا مال، اپنا گھر۔ ان کے پاس اپنی جانوں کی ضمانت بھی نہیں ہے۔ پانی بھی نہیں ہے۔ ‘

ایک سکول میں بنائے گئے عارضی کیمپ میں موجود ایک عمر رسیدہ شخص نے بتایا: ’جنگ کی وجہ سے ہم پر بہت مشکلات آن پڑی ہیں۔ طالبان جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان جنگ کی وجہ سے ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سکول میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کی متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کے بعد طالبان جنگجوؤں نے رات بھر تین صوبائی دارالحکومتوں لشکرگاہ، قندھار اور ہرات پر حملہ کیا۔

صوبہ ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ میں حکومت کی جانب سے سینکڑوں کمانڈوز کی تعیناتی کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی لڑائی شروع ہوگئی، جہاں طالبان نے شہر کے مرکز اور اس کی جیل پر مربوط حملے کیے۔

مئی کے آغاز سے ہی افغانستان میں شورش میں اضافہ ہوگیا ہے، جب عسکریت پسندوں نے تقریباً 20 سال کے بعد امریکہ کے زیرقیادت غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل کا فائدہ اٹھایا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کو قابو میں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، وہیں صدر اشرف غنی نے بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غیر ملکی افواج کے انخلا کا حوالہ دیتے ہوئے اشرف غنی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’ہماری موجودہ صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ اچانک  کیا گیا۔‘

افغان صدر نے مزید کہا کہ انہوں نے واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ انخلا کے ’نتائج‘ سامنے آئیں گے۔

افغان صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ہزاروں مزید افغانوں کو پناہ دے گا۔

سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک بیان میں کہا: ’طالبان کی جانب سے بڑھتے ہوئے تشدد کے تناظر میں امریکی حکومت کچھ افغانوں، جن میں امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے افغان بھی شامل ہیں، آبادکاری کے لیے موقع فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘

واشنگٹن نے پہلے ہی ہزاروں ترجمانوں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے نکالنا شروع کر دیا ہے، جو گذشتہ دو دہائیوں میں امریکی فوج اور سفارت خانے کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا