’سرعام پھانسیاں، محصور شہری‘: تین افغان شہروں پر طالبان کے حملے

قندھار، ہرات اور لشکر گاہ میں مقامی کمانڈروں کے مطابق طالبان کے حملے جاری ہیں اور شہری محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

ملک کے بیشتر دیہی علاقوں پر قبضہ کر چکے افغان طالبان اب شہری مراکز کا رخ کر رہے ہیں اور برطانیہ کے افغانستان میں طویل مدتی میشن کا ایک مرکزی شہر طالبان کے ہاتھوں میں آنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ہلمند صوبے کا دارالحکومت لشکر گاہ ان تین شہروں میں شامل ہے جنہیں امریکی فضائی حملوں اور افغان سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائیوں کے باوجود طالبان کی جانب سے مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ طالبان جنگجو گورنر کے دفتر اور رہائش گاہ سے بس کچھ ہی کلومیٹر ڈور ہیں، ایک کلنک پر بمباری ہو چکی ہے اور کئی گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

ہزاروں شہری جو آس پاس کے دیہات اور قصبوں سے جان بچا کر شہر آئے تھے اب طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں میں گنے چنے محلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

افغان حکومت کے مقامی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ فوجی دستوں اور سامان، جن کی دنوں سے اشد ضرورت ہے، ہفتے کو ہی صوبے میں آنا شروع ہوئے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد مغربی فضائی سپورٹ ختم ہو جانے سے لڑائی والے علاقوں میں فوجوں کو پہنچایا اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔

گذشتہ سالوں میں ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ پر طالبان نے کئی بار حملے کیے ہیں۔ مگر مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس بار صورت حال زیادہ کشیدہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان شہر کا کںٹرول حاصل کرنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہیں۔

کاروبار کرنے والے 48 سالہ ولید میر محمد نے کہا:  ’وہ شہر کے مرکز میں ہیں اور بس اب کچھ دیر کی ہی بات لگتی ہے کہ وہ شہر کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم نظر آ رہے ہیں اور طیاروں کی بمباری کے باوجود آگے بڑھ رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہیں، مگر نہیں جانتے کہ کہاں جا سکتے ہیں۔ ہم گھرے ہوئے ہیں، ہر جگہ لڑائی ہو رہی ہے، سب ڈرے ہوئے ہیں۔ طالبان نے بہت سارے گھروں پر قبضہ کر لیا ہے اور شوٹنگ میں انہیں بہت نقصان ہپہنچ رہا ہے۔‘

میر محمد کے مطابق طالبان نے اضلاع پر قبضہ کر کے بدلے کی کارروائیاں بھی کی ہیں۔

ان کے بقول دو لوگوں کو لشکر گاہ کے قریب ایک قصبے میں سرعام پھانسی دی گئی ہے، جبکہ وہ لوگ جنہوں نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے کوئی بھی کام کیا ہو وہ بہت پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔

دوسری جانب جنگجو قندھار پر بھی قبضہ کرنے کے لیے کارروائیاں تیز کیے ہوئے ہیں، جہاں سے ان کی مہم کا جنم ہوا تھا۔ شہر کے اندر لڑائی کی اطلاعات ہیں۔

اس کے آس پاس کے دیہی علاقوں میں بڑی تباہی کے بعد ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ وہاں سے منتقل ہوگئے ہیں۔

ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر قبضہ طالبان کے لیے ایک اہم سٹریٹیجک اور علامتی فتح ہوگی۔ لشکرگاہ سمیت اس شہر کا کنٹرول انہیں جنوبی پشتون علاقوں پر قبضہ دے دے گا کو افغان حکومت کے لیے واپس لینا مشکل ہوگا۔  

غیر ملکی فورسز کے انخلا کے دوران طالبان کی موجودہ مہم میں حکمت عملی صرف جنوب پر قبضہ نہیں رہی ہے، بلکہ شمال اور مغرب میں بھی خطوں پر قبضے کیے گئے ہیں، جو شمالی اتحاد میں ان کے حریف تاجک، ازبیک اور ہزارہ افراد کے مراکزی علاقے ہیں۔ دارالحکومت کابل کا بھی سب اطراف سے محاصرہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملوں کا سامنا کرتا تیسرا شہر مغرب میں ہرات ہے جس کے پانچ اضلاع میں لڑائی جاری ہے، جن میں وہ حصہ بھی شامل ہے جہاں ہوائی اڈا ہے۔ حکومتی فورسز نے کچھ علاقے واپس لے لیے ہیں مگر جمعے کو اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک گارڈ بھی ہلاک ہوگیا۔

سابق گورنر اور روس کے خلاف لڑنے والے مشہور مجاہد کمانڈر اسماعیل خان نے سینکٹروں کی تعداد میں قبائلی ملیشیا کو متحرک کیا ہے۔

انہوں نے رہائیشوں کو مسلح ہو کر بغاوت کے خلاف لڑنے کی بھی اپیل کی ہے۔

ہلمند میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خاص طور پر برطانیہ کے لیے بہت تشویشناک ہوگا اور اس کی وجہ امریکہ کا جلد بازی میں انخلا ہے جس میں برطانیہ کی فوجی دستے بھی شامل ہیں۔

بہت سے ایسے قصبے اور فوجی اڈے جہاں امریکی اور برطانوی فوجی لڑتے رہے اور سینکٹروں ہلاک اور زخمی ہوئے آج وہاں طالبان نے قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ افغان افواج کچھ علاقوں میں کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں جو علاقے طالبان کے محاصرے میں ہیں۔

مغربی افواج بھی اکثر دفاعی پوزیشن پر ہوتی تھیں جہاں طالبان نے محاصرہ کر رکھا ہو مگر ان کا انحصار فضائی مدد پر ہوتا تھا۔

لشکر گاہ کے مقام پر جنگجوؤں کی پیش قدمی کے پیش نظر افغان حکومت کے جنگی جہازوں نے جمعہ اور ہفتے کو کئی حملے کیے۔ ان حملوں میں نجی ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

حکام کا دعویٰ تھا کہ عمارت میں طالبان موجود ہیں مگر اریانا ہسپتال کے مالک محمد دین نارواہل نے اس دعوے کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ وزارت کے دفاع کی جانب سے ملٹری کو غلط معلومات فراہم کی گئی۔

یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نجی کلنک جس پر طالبان نے قبضہ کیا تھا اسے بم حملے سے تباہ کر دیا گیا ہے۔

ہلمند صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان کا کہنا ہے کہ عام شہریوں سمیت طلابان جنگجو کی اموات ہوئی ہیں۔

تین ماہ قبل امریکی فضائی حملوں نے طلابان کی پیش قدمی کو شمال اور مغربی شہروں سے واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے دوسرے ممالک سے ہونے والے فضائی حملے اب کم ہو چکے ہیں۔

کیپٹن عبدالرحمان، جنہوں نے 12 سال افغان فوج میں گزار کر 14 ماہ پہلے ہی چھوڑا ہے اور ہلمند میں  برطانوی، امریکی اور ڈینش فورسز کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں نے کہا کہ جس طریقے سے افواج کا انخلا ہوا اس پر ان کو مایوسی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اتنی جلد بازی میں انخلا کی ضرورت نہیں تھی اور اس سے طالبان کو یہ اشارہ دیا گیا کہ وہ حملہ کر دیں۔‘

عبد الرحمان نے کہا کہ انہیں ’مرنے والے برطانوی اور امریکی فوجیوں کے خاندانوں کے لیے دکھ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’میں سمجھ سکتا ہوں اگر وہ اب یہ سوال کریں کہ یہ قربانیاں کیوں دی گئیں۔ ہم افغانیوں کے لیے اب بھی جنگ جاری ہے جو کہ افسوس ناک ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا