پبلک کیوں بھری بیٹھی ہے؟

نو مئی کو فساد بپا کرنے والے ہم آپ جیسے عام سے لوگ تھے، پروفیشنل بلوائی نہیں تھے کیوں کہ یہ افراد اپنی شناخت چھپانے، بلوے، دنگے اور ہنگامے کرنے اور کر کے بھاگ جانے کے ہنر سے ناواقف تھے۔

احتجاجی مظاہرین نو مئی 2023 کو کراچی میں ایک ٹینکر کو آگ لگاتے ہوئے (اے ایف پی)

یہ 2009 کے کراچی کی بات ہے۔ ہم پچھلے کئی برسوں سے خون خرابے کی خبریں پڑھنے، اچانک فائرنگ کی آواز سننے، شٹر ڈاؤن کا شور مچتے ہی گھر کی طرف تیزی سے جانے، ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے کو پہچان لینے اور ہر جمعے کو کسی نہ کسی مسجد و امام بارگاہ سے خودکش دھماکے کی بُری اطلاع آنے کے لیے تیار رہتے تھے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

10 محرم 2009 کا جلوس ایسا ہی ایک دن تھا۔ ڈیوٹی پہ مامور نیوز چینلوں کا عملہ، پولیس، رینجرز، جلوس کی قیادت کرنے والے علما، شریک حاضرین، بےامنی کے ٹرینڈ دیکھتے ہوئے سب کو کچھ گڑ بڑ ہونے کا ڈر تھا۔ خدشے کے عین مطابق عصر کے وقت عاشورہ کے مرکزی جلوس میں دھماکہ ہو گیا۔

دھماکے کے مقام سے ہمارا گھر 10 منٹ کی پیدل مسافت پہ تھا لیکن دھماکے کی شدت سے لرز گیا۔ فوری ٹیلی ویژن لگایا جہاں دھماکے کے فوری بعد کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔

غم، غصہ، صدمہ اور شدید ٹراما میں گھرے لوگوں کا ردِ عمل اس وقت کیا ہو گا، یہ جاننا آسان نہیں۔ دھماکہ ہوتے ہی دکانیں جلانے کا آغاز ہوا۔ کراچی کے لائٹ ہاؤس سے ڈینسو ہال اور پھر ڈینسو ہال سے بولٹن مارکیٹ تک جو جو کاروباری علاقے راستے میں تھے سب کو آناً فاناً آگ لگا دی گئی، یہ کراچی کی تاریخ کی بد ترین آتش زدگی تھی۔

مظاہرین دھماکے کے بعد اس حد تک مشتعل تھے کہ ڈیوٹی پہ کھڑے رینجرز اہلکاروں کو گریبان سے پکڑ کر دھکے دیے گئے اور یہ منظر تو میرے سامنے کا ہے کہ مسلح رینجرز اہلکار حالات کا رخ دیکھتے ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔

اسی پریشانی میں نیوز چینلز کی نشریات لگائی، سکرین پہ ایک جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، ہاتھ میں لوہے کی ٹیڑھی میڑھی سی راڈ، کپڑوں پہ خون کے ہلکے دھبے، وہ شخص پولیس کی پہلے ہی جل کر خاکستر ہو جانے والی موبائل وین پہ زور زور سے لوہے کی سلاخ مار رہا تھا۔ یہ ہمیں کچھ عرصہ پہلے انٹر میڈیٹ کی کلاس میں فزکس پڑھانے والے وہ استاد تھے جو خود سکالرشپ پہ لندن سے پڑھ کر آئے تھے اور کچھ عرصہ پہلے ان کے ڈاکٹر بھائی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی۔

بےیقینی سے اس وحشت زدہ شخص کو دیکھ کر میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ توڑ پھوڑ کرتا یہ بلوائی میرا انتہائی ذہین و فطین استاد نہیں ان کا کوئی ہمشکل ہو گا، تاہم یہ گمان غلط ثابت ہو گیا جب کچھ عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ اپنی گرفتاری اور بعد میں ضمانت کروانے کے بعد خود کو نارمل کرنے کی کوششوں میں لگے تھے۔

ان کی شناخت بہرحال بتانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ قانون کی گرفت میں آ گئے تھے، تاہم اس واردات کو ضرور سنانا چاہتی ہوں جو اس اعلیٰ تعلیم یافتہ مشتعل بلوائی نے اس دن کی تھی۔

یہ سال پہلے اپنے ڈاکٹر بھائی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شدید صدمے میں تھے، یہ کئی کئی گھنٹے خبریں سنتے، اخبار پڑھتے اور اپنی کمیونٹی کے اس دائرے میں رہتے جہاں دہشت گردی سے مارے جانے والے دیگر افراد کے لواحقین ہوتے۔

خوف اور پوسٹ ٹراما کے اس عالم میں عاشورہ کا جلوس ان کی پہلی بڑی سماجی سرگرمی تھی۔ دھماکہ ہوا تو یہ شدت سے یہ دور جا گرے، جب زخمی اور مرنے والوں کو اٹھا جا رہا تھا۔ یہ وہیں ساکت اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ کچھ لمحے میں دیکھا کہ منہ ڈھانپے مشتعل لڑکوں کی ٹولی توڑ پھوڑ کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کہتے ہیں کہ کسی قریبی عمارت سے ٹوٹ کر گرا سریا ان کے قریب پڑا تھا، اس لمحے ان کی سوچنے، پلاننگ کرنے، کسی سے بات کرنے، کسی کی بات ماننے یا خود سے کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی۔ انہوں نے وہ سریا اٹھایا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ یہ کہتے ہیں کہ خالی فٹ پاتھ پہ بھی وہ سریا برسایا اور گاڑیوں کے شیشوں پہ بھی اپنی بھڑاس نکالی۔ دکان کے شٹروں پہ وہ سریا دے مارا اور ٹریفک سگنل کے کھمبے کو بھی کئی بار پیٹا۔

بتایا کہ میرے کانپتے ہاتھ بےتحاشا توڑ پھوڑ کر کے بھی تھک نہیں رہے تھے، اس وقت کوئی میرا نام بھی مجھ سے پوچھتا تو شاید میں نہ بتا پاتا لیکن صدمہ، خوف، غصہ اور وحشت کا یہ عالم تھا کہ اپنے نام، پیشے، اعلیٰ تعلیم، خاندان کی عزت، خود اپنی ساکھ اور انجام سے بے پروا ہو کر میں مشتعل ٹولے کا حصہ بن گیا تھا۔

جب تک جل کر سرمہ ہو جانے والی مارکیٹوں کی راکھ بیٹھتی، یہ تب تک گھر میں خاموشی سے بیٹھے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ساری زندگی بائی بک بائی لا گزارنے والے وہ اس حد تک مشتعل کیوں کر ہو گئے۔

فزکس کے اس استاد کی ذہنی کشمکش کی یہ کہانی ایسے کئی نوجوانوں سے ملتی جلتی ہے جنہوں نے وقت، حالات اور جذبات کی رو میں بہہ کر نو مئی 2023 کو ایسا احتجاج کیا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں۔

نہتے لڑکوں، لڑکیوں، سینیئر عمر کی خواتین اور مردوں نے پاکستانی فوج کے دفاتر، فوج کی یادگار علامتوں، اور گھروں کو نشانہ بنایا۔ یہ ہجوم جتھوں کی شکل میں اور بھی خطرناک تھا کیونکہ ان کو لیڈرشپ دستیاب نہ تھی۔

یہ ہم آپ جیسے عام سے لوگ تھے، پروفیشنل بلوائی نہیں تھے کیوں کہ یہ افراد اپنی شناخت چھپانے، بلوے، دنگے اور ہنگامے کرنے اور کر کے بھاگ جانے کے ہنر سے ناواقف تھے۔

اس وقت تحقیق ان مشتعل افراد کے جرائم کی نہیں، ان جرائم کے پیچھے چھپے غم و غصہ اور سیاسی تحریک کی ہونی چاہیے جو ان کو اس نہج تک لے آیا۔ جس سرعت سے آپ قومی یادگاروں کو آگ لگانے والوں کی فہرست بنا رہے ہیں اس ہی تندہی سے اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈیں کہ ان عام سے افراد میں یہ نفرت کیسے پلی بڑھی؟

یہ بھی کریدیں کہ سارا نزلہ آپ پہ ہی کیوں گرا؟ مشتعل مظاہرین کی طبعیت تو صاف ہو ہی جائے گی آپ اپنے گھر کی صفائی کا بھی سوچیں، شاید کہ جان پائیں پبلک کیوں بھری بیٹھی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ