روسی تیل سے عوام کو کتنا ریلیف ملے گا؟

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ روسی تیل کے پاکستان پہنچنے کی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس کی قیمت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔

27 مئی 2022، کی اس تصویر میں کراچی کے ایک پیٹرول پمپ پر شہری اپنے موٹرسائیکل میں پیڑول بھروا رہے ہیں(اے ایف پی)

پاکستان کے عوام سستے پیٹرول کا انتظار کر رہے ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے 15 مئی کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد صارفین پوچھ رہے ہیں کہ کیا پیٹرول مزید سستا ہو گا؟

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ روس سے تیل ملنے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات سستی ہوں گی مگر سوال یہ کہ روسی تیل پاکستان کب پہنچے گا اور کتنا سستا ملے گا؟

وزیر مملکت مصدق ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’روس سے تیل لے کر تیل بردار بحری جہاز اگلے تین ہفتوں میں پاکستان پہنچے گا کیوں کہ روس سے چلنے والا کارگو 26 روز میں کراچی پورٹ تک پہنچتا ہے۔‘

مصدق ملک نے مزید کہا کہ روسی کارگو کے پاکستان پہنچنے کی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی فی الحال روسی تیل کی قیمت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔

آئل ایڈوائزری ایسوسی ایشن کے نمائندے کا کہنا ہے کہ روسی تیل کا کراچی پورٹ پر انتظار کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول: ’کراچی پورٹ کو تیل بردار کارگو کی آمد سے 48 گھنٹے قبل آگاہ کیا جاتا ہے اور فی الحال ہمیں معلوم نہیں کہ جہاز کہاں تک پہنچا ہے اور کب بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گا۔‘

روس کی بندرگاہ سے کراچی پورٹ تک کا فاصلہ تقریباً آٹھ ہزار کلومیٹر (4320 ناٹیکل مائلز) ہے، جبکہ دبئی اور کراچی بندرگاہ کا فاصلہ 13 سو کلومیٹر (702 ناٹیکل مائلز) ہے۔

پاکستان عرب ممالک سے خام تیل برآمد کرتا ہے جو عموماً 80 ڈالر فی بیرل تک ملتا ہے۔

پاکستان نے روس سے 75 ہزار میٹرک ٹن کا آڈر اپریل کے آخر میں بک کیا تھا۔ روس نے تیل کی قیمت پر 60 ڈالر فی بیرل کی حد مقرر کر رکھی ہے۔

وزیر مملکت پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ ’معاہدے کے مطابق روس اور پاکستان تیل کی قیمت کو خفیہ رکھنے کے پابند ہیں۔‘

توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کو تیل کی قیمت کو بتانا ہوگا اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکتا ورنہ پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وزارت پیٹرولیم نے روسی تیل کو پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے ذریعے صاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

توانائی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق نے بتایا کہ پاکستان کی بیشتر ریفائنریز روسی تیل کو ریفائن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن کم معیار والے روسی تیل سے فرنس آئل اور ڈیزل کی پیداوار کے باعث ریفائنریز کا منافع کم ہوسکتا ہے۔

پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او ) کے سابق سربراہ سہیل وجاہت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو خام تیل کی بجائے تیار شدہ تیل درآمد کرنا چاہیے کیوںکہ پاکستان کی آئل ریفائنریز روسی تیل کو ریفائن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’روسی تیل کو ریفائن کرنے کے بعد پاکستان کو فرنس آئل زیادہ اور ڈیزل آئل کم ملے گا جب کہ پاکستان میں ڈیزل آئل کی زیادہ طلب ہے۔ روس کے خام تیل سے 50 فیصد فرنس آئل اور 32 فیصد ڈیزل ملتا ہے جب کہ سعودی عرب کے خام تیل کو ریفائن کرنے سے 25 فیصد فرنس آئل اور 45 فیصد ڈیزل آئل نکلتا ہے۔‘

سمیع اللہ طارق نے بتایا کہ پاکستان روس سے تقریباً 60 ڈالر فی بیرل  کے نرخ پر تیل خرید رہا ہے جو کہ عرب ممالک کے مقابلے میں سستا ہے اس سے پاکستان کے صارفین کو تیل 4 سے 5 روپے فی لٹر سستا مل سکتا ہے تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ ریلیف عوام کو دیا جاتا کے یا پھر ریفائنریز اپنے پاس رکھتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق روس سے ملنے والا تیل پاکستان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہو گا۔ عرب ممالک کے مقابلے میں روسی تیل کے لاجسٹک اخراجات چار سے پانچ ڈالرز زیادہ ہوں گے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ماہر ڈاکٹر منور حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انڈیا سمیت دنیا کے بہت سارے ممالک اور امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنرز بھی سستے روسی تیل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والا ملک سعودی عرب بھی روس کے تیل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

’انڈیا اور چین روس سے بڑی مقدار میں تیل خرید رہے ہیں روس سے تیل خریدنے سے پاکستان پر ڈالر کا دباؤ کم ہو گا۔‘

ڈاکٹر منور حسین نے بتایا کہ امریکہ نے انڈیا کو چھوٹ دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے بھی اپنی بہتر سفارتکاری کے ذریعے امریکہ کو بتایا کہ ہمارے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور مالی مدد کی جائے یا پھر روس سے تیل خریدنے کے لیے انڈیا کی طرح چھوٹ دی جائے جس کے بعد امریکہ نے محتاظ انداز میں پاکستان کو روس سے تیل کی خریداری کے لیے گرین سگنل دیا ہے۔

پاکستان نے روس سے تیل کی خریداری کے لیے رقوم کی ادائیگی کے طریقہ کار کو بھی خفیہ رکھا ہے تاہم سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ روس سے تیل کی خریداری سے پاکستان کو ڈالر کی بچت ہو گی۔

ڈاکٹر منور حسین کہتے ہیں کہ پاکستان یو اے ای درھم یا چینی کرنسی یوآن میں روس کو ادائیگی کر سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت