پاکستان کے لیے روس سے تیل حاصل کرنے کا ’ابھی وقت نہیں ہے‘: امریکہ

پاکستان کی طرف سے روسی تیل کی مجوزہ درآمد کے معاملے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ’ابھی وقت نہیں ہے۔‘

منگل کی شب پاکستان کے روس سے خریدنے کے سوال کے جواب میں نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ روس کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں بڑھانے کا وقت نہیں ہے (اے ایف پی)

پاکستان کی طرف سے روسی تیل کی مجوزہ درآمد کے معاملے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ’اب وقت نہیں ہے۔‘

عرب نیوز کے مطابق ماسکو کی شرائط پر اتفاق ہونے کی صورت میں روس مارچ کے بعد توانائی کے بحران کے شکار پاکستان کو تیل کی برآمد شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستانی حکام اور روس کے وزیر توانائی نکولے شولگینوف نے کہا کہ توانائی کے معاہدے کے اہم نکات پر ابھی اتفاق ہونا باقی ہے۔ روسی وزیر توانائی تجارت اور معیشت پر بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں تھے۔

دونوں فریقوں نے ’تصور کی حد تک‘ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس  کے تحت لاجسٹکس، انشورنس، ادائیگی اور تیل کی مقدار کے تمام مسائل کا تعین اور انہیں حل کرے گا۔

تاریخی طور پر پاکستان کے، ہمسایہ ملک بھارت کے برعکس، ماسکو کے ساتھ بڑے تجارتی تعلقات نہیں رہے، اور امریکہ کے روایتی اتحادی ہونے کی وجہ سے اسلام آباد ماضی میں بھی ماسکو کے ساتھ تجارت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کا انحصار خلیجی ممالک سے تیل کی درآمد پر ہے، جو ادھار پر فراہمی سمیت اکثر سہولتیں فراہم کرتے ہیں، جبکہ پاکستان کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ ملک ٹرانسپورٹ کے کم خرچے پر ترسیل کر سکتے ہیں۔

منگل کی شب پاکستان کے روس سے خریدنے کے سوال کے جواب میں نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ روس کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں بڑھانے کا وقت نہیں ہے۔

’لیکن ہم توانائی کی عالمی منڈیوں میں وسائل کی اچھی طرح سے موجودگی، انہیں اچھی طرح سے سپلائی کی ضرورت کو سمجھتے ہیں، اور ہمارا ماننا ہے کہ قیمتوں کا برقرار رہنا ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔‘

جی سیون معیشتوں، یورپی یونین اور آسٹریلیا نے یوکرین میں ماسکو کے ’خصوصی فوجی آپریشن ‘ کے بعد سمندری راستے سے سپلائی کیے جانے والے روسی خام تیل پر پانچ دسمبر سے فی بیرل 60 ڈالر قیمت کی حد پر اتفاق کیا تھا۔

پرائس کے بقول: ’اس (اسلام آباد-ماسکو معاہدہ)  کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر قیمت کی حد کے طریقہ کار میں بیان کر دیا گیا ہے جس پر ہم نے جی سیون سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ کام کیا۔

’اور قیمت کی حد کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت ماسکو کو ریونیو سے محروم رکھنے کے باوجود توانائی کی مارکیٹوں کے پاس وسائل موجود رہتے ہیں۔ ماسکو کو یوکرین کے خلاف بے رحمانہ جنگ جاری رکھنے کے لیے تیل سے ہونے والی آمدن کی ضرورت ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارا نکتہ یہ ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر روسی تیل کی منظوری نہیں دی۔ اس کے بجائے اب اس پر پرائس کیپ ہے۔ لہٰذا ہم نے مختلف ممالک کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے، حتیٰ کہ ان ممالک کو بھی  جنہوں نے قیمتوں کی حد پر باضابطہ طور پر دستخط نہیں کیے۔ اس لیے وہ دوسرے ملکوں کی بجائے بعض صورتوں میں روس سے بڑی رعایت پر تیل حاصل کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان نے روس سے ملنے والے تیل کی قیمت کی وضاحت نہیں کی اور آیا تیل 60 ڈالر کی پرائس کیپ کے ساتھ برآمد کیا جائے گا۔

ماسکو نے کہا ہے کہ وہ ان ممالک کو آئل فروخت نہیں کرے گا جو پرائس کیپ کی پابندی پر عمل کرتے ہیں۔

پاکستان قیمتیں قوت خرید سے باہر ہونے کے باعث بین الاقوامی منڈی سے ایل این جی درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔

تیل کی ترسیل کے لیے جو طویل مدتی معاہدے کیے گئے وہ ایل این جی کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت