کیا روسی تیل سے معاشی مسائل ختم ہوں گے؟

ایک پیٹرولیم انجینیئر کے مطابق: ’روس سے خام تیل درآمد کر کے ریفائن کرنا ممکن ہے لیکن اس کی کوالٹی عریبین لائٹ آئل کے برابر ہونی چاہیے، کیونکہ پاکستان میں تمام ریفائنریز عریبین لائٹ آئل کے معیار کے مطابق بنائی گئی ہیں۔‘

27 مئی 2022 کو کراچی کے ایک پیٹرول پمپ پر ملازم گاڑی میں پیٹرول بھر رہا ہے (اے ایف پی)

سلیم ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے ہے لیکن اخراجات 30 ہزار روپے ماہانہ سے تجاوز کر چکے ہیں۔

وہ تین ماہ سے قرض لے کر گھر کا خرچ پورا کر رہے ہیں۔

آدھی سے زیادہ تنخواہ بجلی کے بل میں خرچ ہو جاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ مہنگا تیل ہے جو درآمد کرنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں انہوں نے وزیر خزانہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پاکستان روس سے سستی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرے گا۔ سلیم اس خبر کو سن کر بہت خوش ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ سستی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے سے بجلی کا بل کم ہونے کے امکانات ہیں، شاید دفتر جانے کا پیڑول خرچ بھی کم ہو، ضروریات زندگی کی اشیا بھی سستی ہو سکیں اور انہیں ماہانہ خرچ پورا کرنے کے لیے ادھار نہ لینا پڑے۔

لیکن انہیں اس بات کی بھی فکر ہے کہ ماضی میں بھی حکومتیں سستا روسی تیل لینے کا وعدہ کرتی رہی ہیں لیکن اس کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر سستا تیل خریدنے سے میرے بجلی کے بل اور اشیائے خورونوش سستی ہو جاتی ہیں تو میں حکومت کی کارکردگی کو بہتر مانوں گا اور اگر مجھے اس کا فائدہ منتقل نہیں ہوتا تو حکومت سستا تیل خریدے یا مہنگا تیل خریدے میرے لیے بیکار ہے۔‘

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا: ’پاکستان سالانہ تقریباً 15 ارب ڈالر کا تیل درآمد کرتا ہے۔ اگر 30 فیصد ڈسکاؤنٹ مل جائے تو تقریباً چار ارب 50 کروڑ ڈالر کی بچت کی جا سکتی ہے۔ یہ معاہدہ اگر چھ ماہ قبل ہو جاتا تو اب تک تقریباً دو ارب 25 کروڑ ڈالر بچائے جا سکتے تھے۔ حکومت کو یہ معاہدہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’روس سے تیل خریدنے سے سعودی عرب کو فرق نہیں پڑے گا بلکہ پاکستان کو تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان سعودی عرب سے ڈیفرڈ پیمنٹ پر تیل خریدتا ہے جبکہ روس کو ادائیگی فورا کرنا ہو گی، جس سے بیلنس آف پیمنٹ متاثر ہو سکتی ہے۔ روس سے ڈیفرڈ پیمنٹ پر اگر معاہدہ ہو جائے تو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسحاق ڈار امریکہ سے ناکام لوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس پیٹرولیم سبسڈی سے ہونے والے نقصان کے تین متبادل موجود ہیں، جس پر وہ آئی ایم ایف کو راضی کر لیں گے لیکن وہ اس میں ناکام رہے اور 14 روپے پیٹرولیم لیوی بڑھانا پڑی۔ قرضوں پر بھی ریلیف نہیں ملا۔‘

بقول خالد عثمان: ’آئی ایم ایف جانے سے پہلے وہ فرما رہے تھے کہ ڈالر کنٹرول کرنا میری ذمہ داری ہے اور واپسی پر بیان دیا ہے کہ ڈالر کنٹرول کرنا سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ اس ناکامی کے بعد روس سے سستا تیل لینے کا دعویٰ عوام کی توجہ وزرات خزانہ کی ناکامیوں پر سے ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔

’اول تو روس سے انڈیا کی نسبت سستا تیل لینا ناممکن ہے اور دوسرا یہ کہ اگر سٹینڈرڈ ڈسکاؤنٹ مل بھی جائے تو عوام کو فائدہ منتقل نہیں ہو سکے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس میں کئی الجھنیں ہیں۔ روس سے پاکستان تیل پہنچنے میں 25 سے 26 دن درکار ہیں اور خرچ بھی پانچ گنا زیادہ ہے جبکہ گلف ممالک سے تیل تین سے چار دن میں پہنچ جاتا ہے اور خرچ بھی کم ہے۔

’اگر روس 35  ڈالر سستا تیل بیچے تو راستے کا خرچ نکال کر بچت ہو سکتی ہے۔ اس سے کم پر ڈیل فائدہ مند نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ روس پر پابندیوں کی وجہ سے کوئی بینک ایل سی نہیں کھولے گا۔ ڈالرز کی بجائے روبل میں ادائیگی کرنا ہو گی جو شاید امریکہ کے لیے قابل قبول نہ ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خالد عثمان کے مطابق: ’پاکستان کے تیل کی ضرورت سعودی عرب پوری کرتا ہے۔ روس سے تیل خریدنے پر سعودی عرب کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔ روسی تیل کی خریداری میں انڈیا اور پاکستان کا موازنہ کرنا شاید درست نہیں ہے۔ انڈیا ابھرتی ہوئی پانچویں بڑی معیشت ہے اور پاکستان کو موڈیز نے بلیک لسٹ ممالک کی کیٹیگری کے قریب دکھایا ہے۔ انڈیا روس سے تیل خرید سکتا ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر پاکستان کی نسبت آزاد ملک ہے۔‘

اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے میں نے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’روس سے سستا تیل خریدنے سے ڈالر ریٹ نیچے آ سکتا ہے، مہنگائی کم ہو سکتی ہے، شرح سود میں کمی لائی جا سکتی ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو سکتا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کا اثر عوام تک منتقل ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت نے ابھی پیٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ روس سے ملنے والا ڈسکاؤنٹ اس میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے۔ اس وقت تقریباً دو لاکھ ایل سیز پائپ لائن میں ہیں۔ انہیں ریلیز کرنے سے ڈالر کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بڑھ سکتا ہے۔‘

بقول ظفر پراچہ:’جہاں تک بات ہے امریکہ سے اجازت ملنے کی تو فی الحال وزیرخزانہ کے امریکہ سے اجازت ملنے کے دعوے پر یقین کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے امریکی امداد کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے دو ڈھائی ارب ڈالر جیب سے ادا کرنے کی بجائے پاکستان کو روس سے سستا تیل خرید کی اجازت دی ہو تاکہ دو ڈھائی ارب ڈالر پاکستان کو بچت ہو سکے اور امریکہ پر بھی بوجھ نہ پڑے۔‘

نجی آئل ریفائنری میں کام کرنے والے ایک پیٹرولیم انجینیئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’روس سے خام تیل درآمد کر کے ریفائن کرنا ممکن ہے لیکن اس کی کوالٹی عریبین لائٹ آئل کے برابر ہونی چاہیے، کیونکہ پاکستان میں تمام ریفائنریز عریبین لائٹ آئل کے معیار کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ دوسری طرح کے کروڈ سے پیٹرول ڈیزل کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں ہو سکے گی۔‘

ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ روس سے سستا تیل حاصل کرنا اسی صورت میں فائدہ مند ہو گا جب مکمل معاشی اصلاحات بھی کی جائیں، ورنہ سستے تیل سے ہونی والی بچت سود کی ادائیگی اور حکومتی شاہ خرچیوں میں ضائع ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ