بیٹی کی گریجویشن عرصہ بعد پہلی خوشی ہے: والد مشال خان

مشال خان کی بہن ستوریا خان نے حال ہی میں امریکی یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی ہے۔

ستوریا خان (ٹوئٹر ستوریا خان مشال)

امریکہ کی ریاست نیویارک میں واقع بفلو یونیورسٹی میں  سائنس اور آرٹس 2023 کی کلاسز کامیابی سے مکمل کرنے والے طلبا میں ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی ستوریا اقبال بھی ہیں، جو عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کی بہن ہیں۔

ستوریا کے والد محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بیٹے کی موت کے چھ سال بعد پہلی دفعہ ان کے گھر میں خوشی نے قدم رکھا ہے۔

’یہ خوشی میری بیٹی کے کامیابی کے ساتھ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی ڈگری وصول کرنے کی ہے، جس نے ہمیں بیٹے کے اندوہناک موت کے بعد پہلی مرتبہ مسکرانے کا حوصلہ دیا ہے۔‘

ستوریا جو ٹوئٹر پر اپنا نام ستوریا مشال لکھتی ہیں، نے 23 مئی کو ایک پیغام میں لکھا کہ انہوں نے بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لی ہے اور ساتھ ہی یونیورسٹی کی جانب سے تفویض کی گئی دوسری ذمہ داریاں بھی مکمل کر لی ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا: ’میں اپنی ڈگری اپنے بھائی مشال خان کے نام کرتی ہوں، جو کہ شہیدِ علم ہیں۔‘

ستوریا کے اس پیغام کے بعد ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ٹوئٹر فالورز سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا: ’آئیں ستوریا کی کامیابی کا جشن منائیں، جس نے تکالیف اور مصائب کے باوجود اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ ان کا یہ حوصلہ اور ہمت سب کے لیے ایک انسپائریشن ہے۔‘

مشال خان صوبہ خیبر پختون خوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے جنہیں 13 اپریل 2017 کو یونیورسٹی کے احاطے میں مبینہ مذہبی گستاخی کے الزام میں مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔

ستوریا کی کہانی

ستوریا کی کہانی ان کے والد کی زبانی کچھ یوں ہے کہ ان کی بیٹی کو بچپن سے اپنے بھائی مشال خان کی رہنمائی حاصل تھی۔

’یوں کہہ لیجیے کہ وہ ہی ان چھوٹی بہنوں کا استاد تھا۔جو انہیں عمومی معلومات دینے سمیت ان کی درسی کتب میں بھی مدد کرتا تھا۔‘

محمد اقبال نے بتایا کہ ستوریا نے تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں زیدہ سے کیا جہاں وہ ’جناح‘ پبلک سکول میں پڑھتی تھیں، جبکہ مزید تعلیم کے لیے انہوں نے قریبی گاؤں مرغز میں پائنیئر کالج کا رخ کیا۔

محمد اقبال کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو امریکہ کی ایک بہترین یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ ملنے اور  وہاں سے بائیومیڈیکل انجینئرنگ میں ڈگری مکمل کرنے پر ان کے محلے اور گاؤں کی دوسری لڑکیاں بھی تعلیم کی جانب راغب ہوئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس سے قبل ہمارے ہاں اس قدر تعلیم اور اس مقصد کی خاطر بہترین تعلیمی اداروں کے انتخاب کا رجحان نہیں تھا، لیکن ہمارے گھر سے نکلنے والی روشنیوں کا فیض ہے کہ اب گلی محلے کی بیٹیاں بھی تاریکیوں سے نکلنا چاہتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ گریجویشن کے بعد ستوریا نے  فون پر کہا کہ ’بابا آپ نے ہمیشہ جو میرے لیے چاہا، میرے لیے جس راہ کا تعین کیا، اور جو میرا بھائی مشال چاہتا تھا وہ میں نے پورا کر دکھایا۔‘

ستوریا کے والد نے کہا کہ ان کی بیٹی ہمیشہ بائیو، فزکس ، کیمسٹری اور ریاضی میں زیادہ نمبر لیتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بائیومیڈیکل انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ستوریا کا ارادہ اسی شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا ہے لہذا وہ کچھ مزید سال پاکستان واپس نہیں آسکیں گی۔

محمد اقبال، جو ادیب اور شاعر ہیں، نے گلوگیر آواز میں کہا کہ بیٹے کی موت کے بعد ان کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی زمین پر منہ کے بل اتنی زور سے گر جائے کہ پھر اٹھنے کی ہمت نہ ہو۔

’لیکن میری بیٹیاں میری طاقت بن گئی ہیں۔ میری سب سے چھوٹی بیٹیاں ستوری سبا کینیڈا میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ تمام پشتون نسل درنسل تعلیم کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔‘

اس موقع پر انہوں نے اپنا ایک پشتو شعر سنایا، جس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

ایک خوبصورت اور تابناک مستقبل کی جانب رواں دواں ہیں ہم

کبھی گرتے کبھی اٹھتے، جیسے تیسے ہی سہی لیکن رکتے نہیں

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین