لاہور کے علاقے ملت پارک کے ایک گھر سے پولیس کے مطابق اتوار کو آٹے کے کنستر سے پانچ اور تین سال کے دو کم سن بھائیوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جن کے اغوا کا مقدمہ ان کے والد نے درج کروا رکھا تھا۔
اقبال ٹاؤن تھانے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عثمان ٹیپو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو روز قبل بچوں کے والد نے ان کے اغوا کی ایف آئی آر تھانہ ملت ٹاؤن میں درج کروائی تھی۔
ایس پی عثمان ٹیپو کے مطابق: ’دو روز قبل یہ بچے لاپتہ ہوگئے تھے، جس پر تھانہ ملت پارک پولیس نے فوری گمشدگی یعنی اغوا کا پرچہ درج کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے خود تھانہ ملت پارک کے ایس ایچ او اور دیگر اہلکاروں کے ساتھ بیٹھ کر متاثرہ خاندان کی رہائشی گلی میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے کی جمعے اور ہفتے کی فوٹیج دیکھی، جس میں انہیں معلوم ہوا کہ بچے گلی سے باہر نہیں نکلے۔
عثمان ٹیپو کے مطابق اتوار کی صبح دونوں بچوں کی لاشیں گھر کے اندر ہی موجود آٹے کے کنستر سے برآمد ہوئیں۔ ’آٹے کے کنستر سے جب بدبو آنے لگی تو چیک کرنے پر معلوم ہوا کہ اندر دونوں بچوں کی لاشیں موجود تھیں۔‘
ایس پی ماڈل ٹاؤن نے بتایا کہ پولیس سارے معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ بچوں کے والد کوئی مستقل کام نہیں کرتے بلکہ پراپرٹی ڈیلنگ کے ساتھ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور ان کے تین بچے تھے۔ گھر میں ساتھ رہنے والے ان کے بڑے بھائی کے بھی تین بچے ہیں۔
عثمان ٹیپو کے مطابق: ’ابتدائی طور پر دو امکانات ہو سکتے ہیں، جس میں ایک تو یہ کہ بچے کھیلتے کھیلتے کہیں خود اس کنستر میں جا چھپے اور اس کا ڈھکن بند ہو گیا اور وہ اسے کھول نہیں سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کنستر کے پاس بچوں کا سکول بیگ بھی پڑا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بچے اس میں بیٹھے اور ڈھکن بند ہوا اور ایسے صندوقوں کے ڈھکن بند ہونے پر خودبخود کنڈی لگ جاتی ہے۔ بچے اسے کھول نہیں سکے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اندر سے کنستر کو بجایا ہو یا آواز دی ہو لیکن گھر پر کوئی نہیں تھا اس لیے کسی نے آواز نہیں سنی۔‘
بقول ایس پی عثمان: ’اس گھر میں دو خاندان رہتے ہیں جن میں سے اوپر کی منزل پر ان کے تایا کی فیملی ہے اور نیچے کی منزل پر بچے اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ دونوں مرد گھر پر نہیں تھے۔ ہمیں فوٹیج میں دکھائی دیا کہ جمعے کی دوپہر ایک بجکر 16 منٹ پر بچوں کے والد گھر سے گئے اور بچے پونے دو بجے کے قریب بچے سکول سے گھر پہنچے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کی والدہ اپنی والدہ یعنی بچوں کی نانی کے گھر، جو ان کے گھر کے سامنے ہی ہے، گئی ہوئی تھیں۔ بچے سکول سے گھر آ کر اپنی نانی کے گھر پر والدہ سے مل کر واپس گھر آئے۔ گھر پر اس وقت صرف ان کی تائی موجود تھیں۔ بچوں کی والدہ سہ پہر چار بجے گھر واپس آئیں تو انہیں بچے نظر نہیں آئے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’دوسرا امکان یہ ہے کہ گھر کے اندر کوئی داخل ہوا اور بچوں کو مار کر کنستر میں بند کر کے چلا گیا۔ اس بات کا تعین بچوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوگا، لیکن بظاہر ان کے جسم پر کوئی ضرب نہیں ہے۔‘
عثمان نے مزید بتایا کہ پولیس ہر پہلو سے اس کیس کی تفتیش کر رہی ہے جبکہ بچوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دی گئی ہیں جس کی رپورٹ دو روز میں آئے گی۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس واقعے کا نوٹس لے کر اس کیس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
آئی جی پنجاب نے یہ ہدایت بھی کی کہ شواہد اور میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں اس حادثے اور قتل سمیت دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کی موت کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن سارہ احمد نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور اپنی ٹیم کو بچوں کے والدین سے فوری رابطہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔